آئین پاکستان میں تو آج تک بہت ساری ترامیم کی گئی مگر 18 ترمیم کا زکر اکثر جگہ آپکو دیکھنے کو ملتا ہوگا۔ آخر اٹبارویں ترمیم میں ایسا کیا تھا جانتے ہیں یہ سب۔
اس کہ علاوہ آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کب ہوئی؟
پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی گئی۔
اس وقت آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایکزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیے، چونکہ وزیر اعظم قائدِ ایوان ہوتا ہے لہذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس بھی آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی مغربی سرحد صوبے کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا گیا۔ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔
اٹھاوریں آئینی ترمیم میں کون سے آرٹیکل تبدیل کیے گئے؟
آرٹیکل 6 : کے تحت آئین کو معطل کرنے کو بھی غداری کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
آرٹیکل 10: میں اضافی شق 10 اے تجویز کیا ہے جس کے تحت غیر جانبدارانہ ٹرائیل کو بنیادی حق کا درجہ دیا گیا ہے۔
آرٹیکل19: معلومات تک آزادی رسائی بھی بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 25: ریاست تمام پانچ سے چودہ برس تک عمر کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ سرکاری ملازمتوں میں ایسے علاقوں کو جن کی مناسب نمائندگی نہیں ہے برابر لایا جائے۔
آرٹیکل 37: سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
آرٹیکل 48: صدر کو وزیر اعظم کی مشاورت سے اسمبلی تحلیل ہونے یا اپنی مدت پوری کرنے پر عام انتخابات منعقد کروانے چاہئیں اور وہ ہی نگران کابینہ تعینات کریں۔
آرٹیکل 58(2) بی: صدر کے پاس سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لیا جائے۔
آرٹیکل 59: ایوان بالا یا سینٹ کی نشستیں سو سے بڑھا کر ایک سو چار کر دی جائیں اور ہر صوبے سے ایک اقلیتی رکن منتخب کیا جائے۔
آرٹیکل 61: سینٹ کے اجلاسوں کے دن نوئے سے بڑھا کر ایک سو دس کر دئیے جائیں۔
آرٹیکل 90: وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کی جائے۔
آرٹیکل 92: وفاقی کابینہ کی تعداد پارلیمان میں اراکین کی تعداد کا گیارہ فیصد ہوگی۔ اس فارمولے کے تحت موجودہ کابینہ کو کم کرکے بیالیس وزراء تک حکومت کو لانا ہوگا۔
صوبوں میں بھی کابینہ پندرہ اراکین یا گیارہ فیصد جو بھی زیادہ ہو۔ وزرا اعلی وزیر اعظم کی طرح پانچ سے زیادہ مشیر تعینات نہیں کر سکیں گے۔
آرٹیکل 101: صوبائی گورنر اسی صوبے کا ہی رہائشی تعینات کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 104: صوبائی اسمبلی کا سپیکر گورنر کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر مقرر ہوگا۔
آرٹیکل 127: صوبائی اسمبلی کی کم سے کم کارروائی کے دن ستر سے بڑھا کر سو دن کر دیئے جائیں۔
آرٹیکل 140-A: مقامی حکومتوں کو رکھا جائے گا۔
آرٹیکل 147: صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہلکار کو اپنا اختیار دیتی ہے تو اس کی اسے صوبائی اسمبلی سے توثیق کروانا لازمی ہوگی۔
آرٹیکل 153/54: وزیر اعظم مشترکہ مفادات کونسل کے چیئرمین، چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اراکین جبکہ وفاقی حکومت کے تین اراکین شامل ہوں گے۔ کونسل کا کم از کم ہر نوئے روز میں ایک اجلاس ضرور منعقد کیا جائے گا۔ کونسل کا مستقل سیکریٹریٹ ہونا چاہیئے۔
آرٹیکل 157: وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔
آرٹیکل 160: صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 167: صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین القوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔
آرٹیکل 168: آڈیٹر جنرل کی مدت ملازمت چار سال تک محدود کر دی جائے گی۔
آرٹیکل 170: وفاق یا صوبوں کے زیر انتظام خودمختار اداروں کو آڈیٹر جنرل کے تحت لایا جائے۔
آرٹیکل 172: تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ ہوگا۔
آرٹیکل 175-اے: ججوں کی تقرری کا سات رکنی کمیشن۔ کوئی ہائی کورٹ کا جج اپنی مرضی کے بغیر ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔
آرٹیکل 213: انتخابی کمیشنر کی تقرری کا طریقہ کار چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت کر دیا گیا ہے۔ ایوان اور حزبِ اختلاف کے قائدین کی باہمی رضامندی سے اس عہدے کے لیے تین امیدواروں کے نام بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے۔ دونوں قائدین الگ الگ تجاویز بھی بھیج سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے لیے بھی یہی طریقہ کار ہوگا۔
آرٹیکل 224: اسمبلی کی تحلیل یا مدت مکمل ہونے پر صدر عبوری حکومت وزیر اعظم کی مشاورت سے تعینات کریں گے۔ چاروں نگران وزرائے اعلی کا تقرر بھی جانے والے لیڈر آف دی ہاؤس کی مشاورت سے کیا جائےگا۔
آرٹیکل 232: ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔
آرٹیکل 242: پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین کا تقرر اب صدر وزیرِ اعظم کی مشاورت سے کریں گے۔
آرٹیکل 243: فوجی سربراہان کی تقرری بھی اب وزیرِ اعظم کی مشاورت اور پارلیمان کی منظوری سے کی جائے گی۔
آرٹیکل 268: چھٹے شیڈول میں شامل قوانین جس کے لیے صدر کی پیشگی رضامندی ترامیم کے لیے ضروری تھی اس کو ختم کیا جائے گا۔
کمیٹی نے وزیر اعظم اور وزراء اعلی کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے کی پابندی اٹھانے کی تجویز دی ہے۔
0 Comments