گزشتہ کئی دنوں سے ہر طرف براڈ شیٹ کا زکر ہو رہا ہے آخر یہ براڈ شیٹ معاملہ ہے کیا اور کس وجہ سے خکومت پاکستان اتنا زیادہ پیسہ جرمانے کی مد میں براڈ شیٹ کمپنی کو ادا کرے گی؟
جانتے ہیں یہ سب
براڈ شیٹ کیا ہے؟
براڈ شیٹ ایک برطانوی کمپنی ہے جو دنیا بھر میں لوگوں کہ اثاثہ جات پتہ لگانے کا کام کرتی ہے ۔جسے اکثر ممالک یہ زمہ داری سونپ دیتے ہیں کہ وہ ان کہ ملک سے غیر قانونی طور پر بنائی گئی دولت کا پتہ لگائیں۔
پاکستان کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں، جب وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کو معزول کر کہ خود حکومت سنبھالی تو اس وقت برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ جس کے تحت انہیں 200 سیاسی رہنماؤں، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے۔ ان سب کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ جس پر براڈشیٹ کمپنی نے کام شروع کیا اور دی گئی فہرست میں سے کچھ کے بارے میں معلومات بھی فراہم کیں۔
یہ بھی پڑھیں۔
پاکستان دنیا کا دسواں طاقت ور ملک بن گیا۔
پی آئی اے طیارہ روکے جانے کی وجہ کیا تھی؟
دوسرا اہم نام آبدوزوں کے سودے میں بھاری کمیشن لے کر بحری فوج کے سربراہ کے عہدہ سے فارغ ہونے والے نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کا تھا۔ ان کے اکاؤنٹس میں بھی 70 لاکھ ڈالرز سے زائد کا انکشاف ہوا۔
اس پر قومی احتساب بیورو نے ان کے خلاف کیس بنایا اور امریکی حکومت کی مدد سے انہیں پاکستان واپس لایا گیا۔ جہاں ان کے اعزازات تو واپس ہو گئے لیکن پلی بارگین کے ذریعے وہ معمولی ادائیگی کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔
ابراڈ ڈشیٹ کمپنی کے ساتھ نیب کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق نیب نے چوری شدہ رقم سے ریکوری ہونے پر 20 فی صد براڈشیٹ کو ادا کرنی تھی۔ لیکن 2003 تک براڈشیٹ کو معمولی سی رقم کی ادائیگی کی گئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیل اور دیگر معلومات تو حاصل ہوئیں لیکن اس رقم کو واپس لانے کا کوئی سسٹم موجود نہیں تھا۔
ان اکاؤنٹس میں موجود رقم کو پاکستان واپس لانے کے لیے کوئی ایسی قانون سازی اور ان ممالک کے ساتھ معاہدے موجود نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان نے تحقیق اور تفتیش تو کی، لیکن ریکوری نہ ہونے کے برابر تھی۔
براڈشیٹ کی معلومات اور سیاسی فائدے
براڈشیٹ کی معلومات اگرچہ نیب کو ملیں۔ لیکن براڈشیٹ کے مطابق ان کا پاکستان میں سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔ اس بارے میں براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے کہا کہ پاکستان میں اس معلومات سے سیاسی فائدے اٹھائے گئے۔
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے خلاف 50 لاکھ ڈالر کے امریکہ میں موجود ان کے اکاؤنٹس کی معلومات دی گئی اور یہ اکاؤنٹ منجمد کرا دیے گئے۔ لیکن بعد ازاں انہی اکاؤنٹس کو حکومت پاکستان جب آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے نے ڈی فریز کرایا اور کہا کہ ہمیں ان اکاؤنٹس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔آفتاب شیرپاؤ اس کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ بھی بنے۔
کاوے موسوی کا پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے کہنا تھا کہ نیب کی طرف سے ان کی دی گئی معلومات کو سنجیدہ نہیں سمجھا گیا اور کئی بار معلومات فراہم کرنے پر ان کی طرف سے کہا گیا کہ اس شخص کا نام فہرست سے نکال دیں۔ بعد میں جب دیکھا گیا تو وہی شخص حکومت کی مرضی کے مطابق حکومت کا حصہ بن چکا ہوتا تھا۔
براڈشیٹ کو ادائیگی کس طرح ہوئی؟
براڈشیٹ کو حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان کی طرف سے دو کروڑ 87 لاکھ ڈالرز کی میں نیب کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا کمپنی اس معیار پر پوری نہیں اتری اور انہیں مطلوبہ معلومات اور مدد نہیں ملی جس کی وجہ سے معاہدہ ختم کیا گیا۔ لیکن براڈشیٹ نے اس فیصلے کو 2009 میں ثالثی عدالت میں چیلنج کیا۔
سات سال تک یہ مقدمہ چلتا رہا جس کے بعد 2016 میں اس کیس کا فیصلہ پاکستان کے خلاف اور براڈشیٹ کے حق میں ہوا۔
اس دوران پاکستان کی طرف سے اس کیس کو لڑنے کے لیے برطانیہ میں موجود لا فرمز کو بھاری رقوم کی ادائیگیاں بھی کی جاتی رہیں۔
کاوے موسوی نے اس حوالے سے اپنے انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کیس کو لڑنے کے لیے بھی پاکستانی حکام مختلف لا فرمز کے ساتھ ڈیل کرتے رہے کہ انہیں یہ کیس لڑنے کے لیے دیا جائے اور کمیشن و کک بیکس حاصل کی گئیں۔
کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ کیس جیتنے کے بعد انہوں نے نواز شریف حکومت سے رابطہ کیا اور ان سے ادائیگی کے لیے کہا تو حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ جس پر انہوں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ حکومت پاکستان کا مزید پیسہ ضائع کر دیں گے اور انہوں نے اس کیس پر دو کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم ضائع کی۔
نوازشریف نے تحقیقات رکوانے کی کوشش کی؟
کاوے موسوی کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ نواز شریف کی طرف سے اپنے خلاف تحقیقات رکوانے کے لیے انہوں نے براڈشیٹ کو رشوت کی پیشکش بھی کی۔
اس بارے میں کاوے موسوی کا کہنا ہے کہ ایک شخص انجم ڈار ان سے ملا اور نواز شریف کے خلاف جاری تحقیقات روکنے کے لیے دو کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی۔
اس شخص کے مطابق وہ نواز شریف کا بھتیجا تھا اور اس نے نواز شریف سے فون پر بات بھی کی۔ تاہم کاوے موسوی کے اس بیان کی نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس نام کا کوئی شخص ان کے خاندان میں نہیں ہے۔
کاوے موسوی کے مطابق یہ پیشکش انہیں سال 2012 میں ہوئی اور اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ آصف علی زرداری نے مختلف جگہوں پر ان کی طرف سے منجمد کرائے گئے اکاؤنٹس دوبارہ بخال کر دیے گئے۔
1 Comments
زبردست جناب
ReplyDelete