آجکل پاکستان میں یہ بخث جاری کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کہ پاس گروی رکھا جا رہا ہے یا اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کہ تخت چلے گا۔
آئیے جانتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کب بنا کیسے کام کرتا تھا اور نئے ایکٹ کہ تخت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہ معاملات کون کس طرے چلائے۔
سب سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تاریخ؟
بینک دولت پاکستان یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان پاکستان کا مرکزی بینک ہے۔ اس کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا۔ اس کے صدر دفاتی کراچی اور اسلام آباد میں قائم ہیں۔
پاکستان کی آزادی سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا اس علاقے کا مرکزی بینک تھا۔ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد یہی بینک بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کا مرکزی بینک تھا۔ یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ 30 دسمبر 1948 کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70 فیصد بھارت کو دیا جبکہ پاکستان کو 30 فیصد ملا۔ اُس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ایک پرائیوٹ یا نجی بینک تھا۔ یکم جنوری 1974ء کو بھٹو نے اسے قومی ملکیت شامل کر لیا۔
فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فائننشیئل سیکٹر ری فورم کے نام پر خود مختاری دے دی۔ 21 جنوری 1997 میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار کر دیا۔ جس کہ بعد یہ پاکستان کی حکومت کے ماتحت نہیں تھا۔
3 دسمبر 2016ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پارلیمنٹ کوقرضوں کی تفصیل دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ معلومات دینے کا پابند نہیں ہے۔
جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد دسمبر 1988ء میں پاکستان میں ایک امریکی ڈالر 18.60 روپے کا تھا۔ 30 سال بعد عمران خان کے دورِ حکومت میں یکم دسمبر 2018ء کو ڈالر لگ بھگ 140 روپے کا ہو چکا تھا۔
روزنامہ جنگ کہ مطابق 4 دسمبر 2018ء کے مطابق اسٹیٹ بینک نے حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر روپے کی قدر کم کی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 کیا ہے؟
اس نئے قانون کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دوہزار اکیس کا نام دیا گیا ہے اور اس کی منظوری وفاقی کابینہ نے نو مارچ کو دی تھی۔
نئے ایکٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک حکومت کو کوئی قرضہ جاری نہیں کرے گا۔ اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی سطح پر قیمتوں کو مستحکم کرنا اور معاشی استحکام پیدا کرنا ہوگا اور اسٹیٹ بینک حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرے گا۔ اس ایکٹ کے مطابق صدر مملکت کو حکومت کی سفارش پر گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری کا اختیار حاصل ہوگا۔ صدر مملکت عدالتی فیصلے کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کو ہٹا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں بھی توسیع کر دی جائے گی اور ان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز کی گئی ہے، جس میں مزید پانچ سال کی توسیع بھی دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ ڈپٹی گورنرز کی تعداد تین کرنے کی بھی تجویز ہے، جن کی مدت ملازمت میں مزید پانچ سال کی توسیع دی جا سکے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک وزیرخزانہ کی مشاورت سے ڈپٹی گورنرز کے نام تجویز کریں گے۔
اس سے پہلے پورے ملک کا مالک و مختار وزیر خزانہ تھا- اس نئے قانون کے تحت سٹیٹ بینک کو حکومتی فرد واحد کے تسلط سے آزاد کر کہ سٹیٹ بینک کو پارلیمینٹ کے ماتخت مشترکہ طور پر دے دیا گیا۔ یعنی اب پاور کا اختیار ایک بندے کہ بجائے پوری پارلمنٹ کہ پاس ہوگا۔
گورنر کو پہلے وزارت خزانہ کی ایک کمیٹی اپوائینٹ کرتی ہے۔ لیکن اس قانون میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ گورنر کی تعیناتی کا اختیار وزرات خزانہ سے لیکر پاکستانی کابینہ کو دے دیا گیا ہے۔۔کابینہ اپنے اجلاس میں گورنر سٹیٹ بینک تعینات کریگی۔
0 Comments