Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

‏"مزہب، قومیت اور ملک کا جزباتی رنگ"

 ‏"مزہب، قومیت اور ملک کا جزباتی رنگ"

‏"مزہب، قومیت اور ملک کا جزباتی رنگ"


مزہب، قوم اور ملک وہ بنیادی تین فیکٹرز ہیں جن کو موضوع بنا کر عوام کو جزباتی کیا جاتا ہے اور پھر ان عوام کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی علاقے، کسی بھی ملک اور کسی بھی تحریک کے پیچھے یہ تینوں یا پھر انہیں میں سے کوئی نہ کوئی فیکٹر چنا جاتا ہے اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں۔ اول آپ نیلسن منڈیلا کی تحریک کو دیکھ لیں جس میں بنیادی طور پر اک قومیت کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا بھی دوسرے بلیک لوگوں کی طرح انہی کے گروہ میں اک عام سے گھرانے میں ہی پیدا ہوا لیکن اس نے اپنے لوگوں کو معاشرے میں ان کے حقوقِ انسانی دلوانے کے لیے اپنی ساری زندگی قربان کر دی اور آخر ان بلیک پیپلز کو اکٹھا کیا اک تحریک شروع کی اور انکو انکے حقوق دلوائے۔  دوئم، فیڈل کاسترو کی تحریک جس نے کیوبا سے ابتداء کی اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ملکوں میں پھیلتی چلی گئی۔ کیوبا پر پہلے ایورپی لوگ حکومت کرتے تھے لیکن بعد میں امریکیوں نے اس کو یورپ کے چنگل سے تو  چھڑوانے کے لیے انکی مدد کی لیکن بعد میں خود ان پر حاکم بن کر حکومت کرنے لگے۔ 

اسی دوران فیڈل کاسترو جیسا اک عام سا بندہ سامنے آیا جو بنیادی طور پر تو اک وکیل تھا لیکن وہ گاہے بگاہے عوام کو آزادی کی طرف توجہ دلواتا رہا اور جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو اس نے بھی نیلسن منڈیلا کی طرح بندوق اٹھا لی اور تمام آزادی کے پیادوں کو اکٹھا کیا اور گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا۔ یہ اپنی اس خفیہ تحریک اور گوریلا کارروائیوں کے دوران دوسرے لاطینی امریکہ کے ممالک میں بھی گیا اور لوگوں کو آزادی کے لیے اکٹھا کرتا رہا۔ اسی دوران فیڈل کاسترو کی ملاقات تاریخ کے اک اور بڑے نام چی گویرا سے ہوئی جو بعد میں آخر تک فیڈل کاسترو کے شانہ بشانہ جدوجھد کرتا رہا کہ اک دن ان کی محنت رنگ لائی اور انہوں نے امریکیوں کو کیوبا سے نکال باہر کیا۔ سوئم۔ ولادیمیر لینن جو کہ مارکسزم سے  بہت متاثر تھا اس نے بھی لوگوں کو آزادی اور قوم کے نام پر اکٹھا کیا اور اس دور کی بادشاہت کو للکارا اور ان سے چھٹکارا حاصل کیا اور اک کمیونسٹ حکومت قائم کی جس میں سوویت یونین کے بعد میں انتہائی مشہور سیاستدان جوزف اسٹالن نے بھی اسکا ساتھ دیا۔ چہارم۔ جرمن ہٹلر کے بارے میں کون نہیں جانتا وہ انسان جسکی وجہ سے جنگ عظیم دوئم میں کروڑوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ اصل میں جنگ عظیم اول کے ہتک آمیز معاہدے ہی جنگ عظیم دوئم کی سب سے بڑی وجہ بنے۔ بعض اوقات انسان کی اک  چھوٹی سی غلطی بہت بڑے سانحے کا باعث بنتی ہے۔ 

بعض حوالوں کے مطابق جب جنگ عظیم اول ختم ہو رہی تھی تو الائیڈ فورسز کے فوجی جرمنوں کو چن چن کے مار رہے تھے کہ اسی دوران ان کو اک انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اک لنگڑاتا ہوا جرمن نظر آیا تو ان کو اس بندے پر ترس ا گیا اور انہوں نے اس جرمن کی جان بخش دی۔ اب ان کو کیا معلوم تھا کہ کل کو یہی بندہ کروڑوں لوگوں کی موت کی وجہ بنے گا اور جرمن فوج کا سپریم کمانڈر بنے گا کیونکہ یہ وہی بندہ تھا جسکو بعد میں دنیا ایڈولف ہٹلر کے نام سے جاننے لگی۔ اس نے بھی جرمن لوگوں کو قوم کے نام پر اکٹھا کیا اور انکو یہ باور کروایا کہ جرمن دنیا کی سب سے بہترین قوم ہے اور اسے پوری دنیا کو فتح کرنا چاہیے۔ اسی پس منظر میں برصغیر کے مسلمانوں کو مزہب، ملک اور اک قوم کے نام پر اکٹھا کیا گیا اور اس خطے میں اک الگ وطن کی تحریک چلائی گئی۔ اصل میں لوگوں کا کسی اک مسلے پر اکٹھا ھونا اور اپنے حق کے لیے تگ و دو کرنا ہی بنیادی طور پر جمہوریت کی اک بنیادی اکائی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر جگہ عوام کو پھسلا کر اپنے زاتی مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے بلکہ حقیقی لیڈرز ہمیشہ انہی عوام میں شعور اجاگر کر کے ہی ان کے ساتھ اپنی اپنی تحریکوں میں کامیاب ہوئے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا نیلسن منڈیلا، فیڈل کاسترو اور ولادیمیر لینن کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ دوسری طرف کچھ نام نہاد لیڈرز ایسے بھی گزرے جنہوں نے اپنی ذاتی انا کو سکون دالونے کے لیے عوام کا نہ صرف استعمال کیا بلکہ ان کو جہالت اور موت کی اندھیری کوٹھڑیوں میں پانبد سلاسل کیا جن میں ایڈولف ہٹلر کا نام سر فہرست آتا ہے۔

 خیر بات ہو رہی تھی تحریک پاکستان کی تو اسے بھی مندرجہ بالا تین فیکٹرز کی بنیاد پر برصغیر میں لانچ کیا گیا اور مسلمانوں کو آزادی کی ہوا دی گئی۔ اصل کہانی تو اس تحریک کی سر سید احمد خان کے دور سے شروع ہوتی ہے جب غالباً پہلی بار اردو اور ہندی زبان کا مسلہ سامنے آیا۔ اس کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی جس میں شمولیت کی سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو مخالفت کی تلقین کی کیونکہ تب مسلمان اتنے پڑھے لکھے اور ہندوؤں کی چالاکیوں کو سمجھنے والے نہیں تھے۔ اسی لیے پہلے انکو باقاعدہ تعلیم وہ بھی مزہبی کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی تلقین کی گئی اور علی گڑھ تحریک کی بنیاد رکھی جو کہ اصل میں پاکستان بنانے میں اک سنگ میل ثابت ہوئی۔ بعد میں اسی علی گڑھ سے ہی تعلیم حاصل کرنے والوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی اور تحریک پاکستان میں پیش پیش رہے۔ آخر کار برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اک الگ وطن حاصل کر لیا گیا۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک کے دوران لیڈرز اور ان کے ساتھیوں اور لوگوں کا رویہ اور جزبہ اور ہوتا ہے اور اقتدار میں آتے ہی ان کے رویے واضح طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔

 لیکن جو حقیقی لیڈر ھوتا ھے اس کا رویہ اپنی منزل حاصل کرنے بعد مزید انسان دوست اور بہتر ہو جاتا ہے اور جو اپنا رویہ بدل کر اپنے عوام سے اقتدار کے حصول کے بعد آنکھیں پھیر لیں وہ اصل میں مفاد پرست ہوتے اور سیاست دان ھوتے ھیں نہ کہ لیڈر اور اقتدار ہی انکی اصل منزل ہوتی ہے۔ دوسری جانب جو لیڈرز ہوتے ہیں ان لوگوں کو حکومت اور اقتدار سے کچھ لینا دینا نہیں ھوتا وہ بس اپنی قوم کے لئے اک راہ ہموار کرتے ہیں اور پھر بعد میں اک سائیڈ ہو جاتے ہیں مثلاً نیلسن منڈیلا اس نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد عام معافی کا تب اعلان کیا جب وہ اپنے بدلے چن چن کر لے سکتا تھا۔ اس نے بس اک ٹرم صدارت کی گزارنے کے بعد اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

پاکستان کی سیاست اس لحاظ سے مختلف ہے کیونکہ پاکستان بننے کے فوراً بعد پاکستانی سیاست میں اک امیر ترین مفاد پرست گروہ نے قبضہ کر لیا۔ تحریک پاکستان کے اصل لیڈرز تو پاکستان کے بننے کے دوران یا فوراً بعد اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اور پیچھے آگئے ایکسیڈنٹل سیاست دان نہ کہ لیڈرز۔ دوسری جانب تحریک پاکستان کے زیادہ تر عوامی لیڈرز مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جنکو پاکستان بننے کے بعد حقیر جانا گیا اور اک دن انکو الگ ہی کر دیا گیا۔ ادھر مغربی پاکستان میں سیاستدان کے چند خاندانوں نے پاکستان میں اک ایسی نوراکشتی شروع کی جو کہ آج تک جاری وساری ہے۔ ان سیاسی گھرانوں کی اب تقریباً تیسری نسل اپنے آپ کو صاحب اقتدار کرنے کے لیے اپنے پر پھڑپھڑا رہی ہے۔ ہاں اس عشرے کے دوران ان روائتی سیاسی جماعتوں میں اک الگ سیاسی جماعت کا اضافہ ضرور ہوا لیکن جس تبدیلی کو ان تیسری جماعت نے اپنی الیکشن کمپین کا موضوع بنایا تھا وہ ابھی تک تو نہ آسکی۔

 حکومت کی اسی ناکامی کی وجہ سے پاکستان کی تقریباً مردہ اپوزیشن میں حرارت کی اک نئی لہر ضرور دوڑگئی۔ کل کا گجرانوالہ کا جلسہ بھی مہنگائی کی ستائی ہوئی عوام کو استعمال کرنے کا اک سیاسی موقع تھا جو کہ اپوزیشن نے استعمال کیا اور آگے بھی استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری جانب موجودہ حکومت فی الحال تو ڈیلیور نہیں کر پا رہی جس کی وجہ سے موجود حکومت کو مسائل کا سامنا ہے کیونکہ اس کے بلند وبانگ دعوے ہی اس کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ عمران خان کو جلد ہی ان مسائل پر قابو پانا ہو گا نہیں تو پاکستان میں اک بار پھر عوام مہنگائی اور مسائل کے نام پر استعمال ہونے جا رہے ہیں جو کہ پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک استعمال ہو رہے ہیں۔


محمد محسن رفیق

Post a Comment

0 Comments