وہ زمانے گئے جب جنگیں محاذوں پر آمنے سامنے لڑی جاتی تھیں، دور جدید میں جنگ کی اصطلاح ہی بدل چکی ہے اب مقابلہ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معاشی و فکری میدان میں بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کو بغیر جنگ کیئے غلام بنانے کے کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔۔۔۔ ایسی قوم کو بیرونی حملوں سے نہیں بلکہ اندرونی سازشوں سے توڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ تو خون خرابہ ہوتا ہے نہ جائیدادوں کا نقصان، بس یہ طریقہ سست اور صبر آزما ہے۔ اس مقصد کے لیئے میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے کے علاوہ تعلیمی اداروں اور نصاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انگریزی کہاوت ہے کہ تاریخ ایک ہتھیار ہے .
(history is a weapon)
ایک قوم کو اس کی اساس سے دور کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اسے نہتا کر دیا جائے مثال کے طور پر پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آیا، آج کچھ لوگ اس پر ہی سوال اٹھاتے بلکہ اس کو سرے سے رد کرتے نظر آتے ہیں، اب آپ سوچیں کہ پاکستان کی بنیادی اساس پر ہی سوالیہ نشان لگادیا جائے تو پاکستان کے وجود اور اسکی بقا کی کیا ضمانت ہوگی؟ ایک ڈیزائنڈ لٹریچر لوگوں کو با آسانی تاریخ سے دور کر کے ملکی دفاع کو کمزور کرسکتا ہے، بچوں/نوجوانوں کو ایجوکیشن کے نام پر mis-education دی جاتی ہے، تاریخ مسخ کر کے پڑھائی جاتی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ وہ اصول سکھائے جاتے ہیں جو دشمن کو دوست دکھاتے ہیں، ایک مخصوص مائنڈ سیٹ پروان چڑھایا جاتا ہے جو ریاست/مذھب سے مخالفت اور بغاوت کا تصور ذہنوں میں راسخ کردیتا ہے، ظلم و استحصال کی داستانیں دہرا دہرا کر ایک پراگندہ biased ذہن بنادیا جاتا ہے جو اپنی عقل سے فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور اپنے رہبر/استاد کی بتائی باتوں پر ہی من و عن یقین رکھتا ہے،
عدم برداشت کا انتہا پسندانہ رویہ انہیں اس حد تک لے جاتا ہے کہ پھر وہ اپنے نظریئے سے اختلاف کرنے والے کو بدترین دشمن گردانتے ہیں اور اس طرح کے لوگ پھر قومی دھارے میں شامل ہو کر ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں پاکستان میں کئی ایسے "گروہ" سرگرم ہیں جو اپنے مذموم عزائم اور بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نئی نسل کی مائنڈ پروگرامنگ کر رہے ہیں جس کے ثمرات و اثرات ہمیں اپنے اردگرد دکھائی بھی دیتے ہیں کہ لوگ یا تو مذھب بیزار نظر آتے ہیں یا ریاست مخالف ابھی کا واقعہ لیجیئے تیس سال سے دس غیر قانونی ایرانی اسکولز چل رہے تھے بلوچستان میں جہاں اساتذہ بھی غیر ملکی تھے اور نصاب بھی۔۔۔ ان تیس سالوں میں کتنے بچے وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے ہونگے؟ وہ بچے ایران کے وفادار ہونگے یا پاکستان کے؟ اسی طرح یونیورسٹیز میں سیکولرازم کی ترویج و اشاعت جاری ہے، سعودی فنڈڈ مدارس بھی چل رہے ہیں اور دیگر سیاسی، مذھبی و لسانی قوم پرستی کے پروپیگنڈے کا سلسلہ بھی جاری ہے.
اب وہ وقت ہے پاکستانیوں کو اس برین واشنگ کا شکار ہونے سے روکا جائے!!
یکساں تعلیمی نصاب لاگو ہونے کے بعد دیگر کسی بھی قسم کے لٹریچر کو سرکاری منظوری کے بغیر ہرگز نہ پڑھایا جائے، بصورت دیگر یہ فرقوں اور قومیتوں میں بٹی قوم آپس میں ہی لڑ لڑ کے مر جائے گی اور دشمن فقط تماش بین ہونگے!!!
0 Comments