پاکستان کا پہلے صدر اسکندر مرزا تھے جو میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔آج ہم ان کہ بارے میں کچھ ایسی معلومات فراہم کریں گے جنہیں تاریح سے ہذف کر دیا گیا ہے۔
اسکند مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔
اسکندر مرزا کو کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا ۔ وہاں سے کامیاب ہو کر
1919ء
میں واپس ہندوستان آئے
1921ء میں وزیرستان کی لڑائی میں شریک ہوئے۔
1922ء سے 1924ء تک پونا ہارس رجمنٹ میں رہے جس کا
صدر مقام جھانسی تھا۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کہ بعد رقبے کہ لخاظ سے دوسری بڑی سلطنت درانی سلطنت کہ بانی کون تھے؟
ڈاکٹر شکیل افریدی کون ہیں؟
موبائل استعمال کہ وقت وہ غلطیاں جو ہماری صحت کہ لیے نقصان دہ ہیں۔
1926ء میں انڈین پولیٹکل سروس کے لیے منتخب ہوئے اور ایبٹ آباد ، بنوں ، نوشہرہ اور ٹانک میں انگریزوں کی طرف سے بطور اسسٹنٹ کمشنر کام کیا۔
1931ء سے 1936ء تک ہزارہ اور مردان میں انگریزوں کی طرف سے ڈپٹی کمشنر رہے۔
1938ء میں خیبر میں پولیٹکل ایجنٹ مامور ہوئے۔ انتظامی قابلیت اور قبائلی امور میں تجربے کے باعث
1940ء میں انگریز سرکار نے آپ کو پشاور کا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا۔ یہاں 1945ء
تک رہے۔ پھر ان کا تبادلہ اڑیسہ کر دیا گیا۔
1942ء میں حکومت ہند کی وزارت دفاع میں جائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری نامزد ہوئے مئی
1954ء میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے ۔ پھر وزیر داخلہ بنے۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے۔ ملک غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر انھیں 6 اگست 1955
کو قائم مقام گورنر نامزد کیا۔
5 مارچ، 1956ء کو پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
صدر پاکستان بننے کہ بعد ان کہ دل میں یہ لالچ پیدا ہوا گیا۔سکندر مزا نے ایک شحص کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میں اپنے اس اقتدار کو لامتناہی کرنا چاہتا ہوں۔
اور شحص تھے ایوب خان جو کہ انگریز فوج میں بطور کپتان خدمات سر انجام دے چکے تھے اور ان کہ وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ انگریزوں کہ لیے ان کہ مقامی افسران کی محبری کرتا تھا ۔
یاف رہے کہ قائد اعظم محمد علی جناخ اسی وجہ سے ایوب خان کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔
27 اکتوبر 1958 کو مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے برطرف کر دیا ۔ اور وہ ملک چھوڑ کر اپنی بیگم کے ہمراہ لندن چلےگئے۔
سکندر ایوب مرزا کہ زندگی کہ آخری ایام بہت تکلیف دہ رہے تاریخ میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ لندن میں ایک ہوٹل میں ٹھرے تھے لیکن خقیقت اس کہ برعکس ہے ۔
سکندر مرزا لندن کہ ایک ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرتے رہے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔
ان کی وفات کہ وقت کوئی تدفین کہ لیے موجود نہیں تھا اور نہ کوئی زمہ داری قبول کر رہا تھا۔ جب پاکستان سے رابطہ کیا گیا تو جواب ملا کہ ہم ان کی لاش کو قبول نہیں کریں گے جس کہ بعد اس وقت کہ شہنشاہ ایران کو ان پر ترس آیا اور انہوں نے کہا آپ یہاں بھیج دیں ہم ایران میں ان کی تدفین کرتے ہیں ۔
تو یوں سکندر مرزا کو ایران میں دفنا دیا گیا مگر تاریخ میں اکثر جگہ بتایا جاتا ہے کہ سکندر مرزا کی وسیت کہ مطابق ان کو ایران میں سپرد خاک کیا گیا.
مگر ایسا بلکل نہیں ہے۔
0 Comments