16 جنوری 2021 کو نیپالی کوہ پیماوں نے سرد موسم میں دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کے ٹو سر کر کہ ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا۔جسے گنیز بل آف دی ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔
پاکستان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کرنے کہ لیے مخمد علی سدپارہ اور ان کہ بیٹے ساجد علی سدپارہ نے سبز ہلالی پرچم اپنے ہمراہ لیا اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کرنے نکل پڑے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
23 جنوری رات 9 بجے مخمد علی سدپارہ اپنی ٹیم کہ ہمراہ بیس کیمپ سے نکلے۔24 جنوری دن کہ 4 بجے کیمپ 3 تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
لیکن خطرناک موسم کی صورتخال کہ پیش نظر اپنا سفر آگے جاری نہ رکھ سکے اور 25 جنوری کو اپنی ٹیم کہ ہمراہ واپس بیس کیمپ پہنچ گئے۔
5 فروری کو موسم کی صورتخال بہتر ہونے کہ بعد دوبارہ اپنی ٹیم کہ ہمراہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
مگر راستے میں ان کہ بیٹے ساجد سدپارا کہ آکیسجن سلینڈر میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے وہ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے اور واپس بیس کیمپ پہنچ گئے مگر ان کی ٹیم کا سفر جاری رہا۔
ساجد سدپارا نے واپس آنے کہ بعد بتایا کہ ان کہ واپسی کہ وقت ان کو اوپر نہ کوئی روشنی نظر آئی نہ کوئی خرکت۔جس کہ بعد 6 فروری تک سب کی نگاہیں علی سدپارا اور ان کی ٹیم کی واپسی پر لگ گئی جن کا اپنے بیٹے اور بیس کیمپ سے آخری بار رابطہ دو دفعہ ہوا تھا۔
آکسیجن لیول کم ہونے پر سروائیول اسٹیپ کرتے ہوئے ایک کوہ پیما صرف 90 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔جبکہ علی سدپارا اور اس کی ٹیم کو لاپتہ ہوئے گئی دن گزر گئے ہیں۔پاکستاج فوج کہ جوانوں کا سخت موسم کہ باوجود ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
اب ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے جو علی سدپارا اور اس کی ٹیم کو زندہ واپس لا سکے۔
دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 8 پر سبز ہلالی پرچم لہرانے والے ساجد علی سدپارا کے ٹو کی چوٹی پر تو پاکستانی پرچم نہ لہرا سکے مگر دنیا کی دوسری بلند چوٹی نے انہیں اس پرچم کہ ساتھ ہی اپنی آغوش میں لے لیا۔
0 Comments