سوال:
شبِ براءت کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:
شعبان کی پندرہویں شب ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے۔ یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیا جاتا ہے۔ تقریباً دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آرام گاہ پر موجود نہ پایا تو تلاش میں نکلی، دیکھا کہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں، پھر مجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے۔“
دوسری حدیث میں ہے: ”اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے ہر بچے کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کا نام لکھ لیا جاتا ہے، اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور تمہارا رزق اتارا جاتا ہے۔“
اسی طرح ایک روایت میں ہے: ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے، سوائے سات اشخاص کے، وہ یہ ہیں: مشرک، والدین کا نافرمان، کینہ پرور، شرابی، قاتل، شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور چغل خور، ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرو اوردن میں روزہ رکھا کرو، اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اعلان ہوتاہے کون ہے جو گناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟ کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہو؟
مذکورہ روایات اور اس طرح کی دیگر احادیث سے اس رات کی فضیلت ثابت ہے، اگرچہ ان روایات پر اسنادی حیثیت سے کلام ہے، تاہم سب کا مجموعہ ملاکر قابلِ استدلال ہے، خصوصاً جب کہ فقہائے کرام اور سلفِ صالحین نے ان روایات کے ضعف کو جاننے کے باوجود ان احادیثِ مبارکہ کو قبول کیا ہے تو اہلِ علم کا عمل کے ذریعہ قبول کرلینا ان روایات کے ثبوت کی دلیل بن جاتا ہے۔
بہرحال ان احادیثِ کریمہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین کے عمل سے اس رات میں تین کام ثابت ہیں:
1- قبرستان جاکر مردوں کے لیے ایصالِ ثواب اور مغفرت کی دعا کرنا۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ ﷺ کی پوری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک سال شب برأت میں قبرستان جاناثابت ہے، اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلا جائے تو اجر وثواب کاباعث ہے۔ لیکن پھول پتیاں، چادر چڑھاوے، اور چراغاں کا اہتمام کرنا اور ہر سال جانے کو لازم سمجھنا اس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنا درست نہیں ہے۔ جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہیے، اس کانام اتباع اوردین ہے۔
۲۔ اس رات میں نوافل، تلاوت، ذکرواذکار کا اہتمام کرنا۔ اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔ لہذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔ نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانا درست نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شور وشغب اور میلے، اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
۳۔ دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، ایک تو اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض (۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے، لہذا اس نیت سے روزہ رکھا جائے تو موجب اجر وثوب ہوگا۔
باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کا اہتمام کرنا یہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔ شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔
بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔
مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: فتاویٰ بینات، جلد :اول، صفحہ:۵۵۲ تا ۵۵۷، مطبوعہ: مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200877
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
0 Comments