کسی ملک کی معیشت اسکی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ جس طرح انسانی ڈھانچہ ریڑھ کی ہڈی کے بغیر کھڑا نہیں رہ سکتا بالکل اسی طرح کوئی بھی ملک معیشت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس لیے ماضی سے لے کر دور حاضر تک ہر ملک و قوم کی بنیادی توجہ اپنی معیشت پر مرکوز رہی ہے اور ہنوز ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جو ملک و قوم اپنی معیشت کو پٹری پر قائم نہ رکھ سکے وہ زوال کا شکار ہوئے۔ پاکستان بھی دوسرے کئی ترقی پزیر ممالک کی طرح کئی دہائیوں سے معاشی زبوں حالی کا شکار ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ دہائیوں سے ہمیں کوئی ایسا قابل لیڈر بھی میسر نہ آیا جو اس معاملہ کی سنجیدگی کو سمجھتا اور معیشت کو پٹری پر چڑھانے کی کوشش کرتا۔ ایوب خان چاہے اک ملٹری ڈکٹیٹر تھا لیکن اسکا دور پاکستانی معیشت کا اک سنہرا دور گردانا جاتا ہے۔
اس کے بعد ذولفقار علی بھٹو نے اس معاملے میں کچھ تگ و دو کی لیکن وہ بھی بس تازہ ہوا کا اک جھونکا ثابت ہوا جو آیا اور گیا۔ بعد میں مشرف اور نواز شریف کے ادوار میں بھی کام ہوا لیکن ویسا نہیں جس سنجیدگی سے ہونا چاہیے تھا۔ مشرف اور ضیاء الحق کے دور کو خالص معاشی ترقی کا دور اس لیے نہیں پکارا جا سکتا کیونکہ ان دونوں ادوار میں افغانستان جنگ کی وجہ سے ملکی امداد کی مد میں بہت پیسا آیا جو کہ زیادہ تر تو فوجی امداد کی شکل میں تھا جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اصل معاشی ترقی تو وہ ترقی ہوتی ہے جس میں عام عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر انہی کی محنت و مشقت کی بدولت پورا ملک ترقی کرتا ہے نہ کہ صرف اشرافیہ۔ دور حاضر میں اگر آپ کسی ملک کو
معاشی ترقی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں تو آپ چائنہ کی مثال لے سکتے ہیں کہ کس طرح موزے تنگ نے اپنے دور اقتدار میں ملک کو مستقبل کو بھانپتے ہوئے ستر کی دہائی میں ہی چائنہ کو ملکی اور معاشی ترقی کی پٹری پر چڑھا دیا۔ موزے تنگ کے بعد میں آنے والے حکمران بھی اسی معاشی ترقی کی پالیسی کو اپنے اپنے ادوار میں اسی طرح لے کر آگے چلتے رہے۔
انہوں نے عام عوام کو ملکی ترقی میں انگیج کیا چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ لگائے اور آج اکیسویں صدی میں وہ چائنیز جن کو دنیا بھنگیوں کے نام سے جانتی تھی آج دنیا کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاؤہ آپ ترکی کی مثال لے سکتے ہیں۔ آپ سنگاپور اور ملائیشیا کے معاشی ترقی کے ماڈلز دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کو ان تمام ممالک میں اک بات واضح نظر آئے گی کہ انہوں نے ملکی ترقی کے لیے عام عوام کو اپنے ساتھ انگیج کیا۔ ان کو بتلایا کہ اگر مستقبل میں نام پیدا کرنا ہے تو ہمیں اسکی آج سے ہی پلاننگ کرنا ہو گی۔ اس کے علاؤہ ان ممالک کو قدرت نے بے پناہ خوبیوں کے مالک لیڈرز عطا کیے جنہوں نے اپنے خاندانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا سوچا اور آج دنیا میں انکا مقام دیکھ لیں۔ لیکن دوسری جانب آپ ہمارے وطن عزیز کی طرف دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔
کیا ہمیں ملکی ترقی میں انگیج کیا گیا؟ کیا عام عوام کو وہ موقعے فراہم کیے گئے کہ وہ دلجمعی سے اس ترقی میں حصہ لے سکتے؟ کیا ہمیں کوئی موزے تنگ، طیب اردگان،۔۔۔۔۔۔جیسا کوئی لیڈر مل پایا؟ کیا کوئی ایسا حکمران نصیب ہو سکا جس کو پاکستانی عوام اپنا حقیقی لیڈر مان سکتے؟ جس پر عوام کو اعتبار ہوتا کہ یہ حکمران اپنی تجوریاں بھرنے کی بجائے ملکی تجوریاں بھرے گا؟
بدقسمتی سے پچھلے 73 سالوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ہمیں کوئی حقیقی لیڈر میسر ہی نہیں آسکا۔ جو بھی ہمیں ملا سیاستدان ہی ملا جس نے ملک کی بجائے اپنی پارٹی، خاندان، اور قریبی دوستوں کی ترقی کے بارے میں ہی سوچا۔ جس نے آنے والی نسل کا نہیں بلکہ اگلے الیکشن کا ہی سوچا۔ جس نے ترقی کرتے ہوئے ملکی اداروں کو تو ڈبو دیا لیکن اپنی ملیں، محل اور پلازے کھڑے کرتے گئے۔ جن کے اپنے تو جانور بھی مٹن، دیسی گھی اور مربے کھاتے ہیں لیکن عام عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج 73 سال کے بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا یا ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی پیچھے ہی گئے ہوں۔
معاشیات نہ تو میری فیلڈ ہے اور نہ ہی مجھے کوئی اس سے خاص لگاؤ ہے لیکن گزشتہ مہینے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی کتاب "علم الاقتصاد" پڑھنے کا موقع ملا تو معیشت کے بارے میں کچھ جانکاری حاصل ہوئی۔ علم الاقتصاد پہلی بار سن 1900عیسوی میں چھاپی گئی جب ڈاکٹر صاحب نے ابھی پی۔ایچ۔ڈی نہں کی تھی اس لیے کتاب کے ٹائٹل پیج پر صرف شیخ محمد اقبال لکھا ہوا ہے۔ یہ کتاب 1900 میں لکھی گئی جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا اس لیے اس میں موجود ساری تفصیل ہندوستان کی معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان کی گئی۔
پاکستان میں ویسے بھی کتاب بینی کا کوئی خاص رواج نہیں ہے اس لیے کتابیں لکھنے کی طرف بھی کوئی خاص جھکاؤ نہیں۔ اور ویسے بھی ہم احساس کمتری میں مبتلا قوم گوروں کی کتابوں کو پڑھنے اور پڑھانے میں فوقیت دیتے ہیں ورنہ یہ کتاب معاشیات کے سٹوڈنٹس کو تو ضرور پڑھنی چاہیے جنکو شاید اسکا نام تک معلوم نہیں ہو گا۔ اب آتے ہیں علم الاقتصاد کے چند چیدہ چیدہ نکات کی طرف۔
اس کتاب میں مصنف نے سب سے پہلے ہندوستان کی معیشت کے بارے میں جس چیز پر زور دیا وہ ہے صنعتی ترقی۔ کیونکہ ہندوستان اک زر خیز علاقہ ہے اس لیے یہاں خام مال اور ورکروں کی کوئی کمی نہیں لیکن یہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی مستقبل کے بارے میں سوچ کا فقدان ہے۔ پہلے تو تعلیم کی کمی ہے اور اگر تعلیم ہے بھی تو وہ ٹیکنیکل نہیں جو سائنسدان پیدا کر سکے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان جیسے ممالک میں نئی نئی ٹیکنالوجی آنے لگی تھی اس لیے یہ ضروری تھا کہ تب سے ہی صنعتی ترقی کی جانب قدم اٹھاتے اور آج صف اول کی اقوام میں شمار کیے جاتے۔
0 Comments