خوشامد کا لفظ تو آپ نے سنا ہو گا۔ اگر یہ سنا ہے تو اس کے ساتھ جڑے اک خاص طبقہ کے بارے میں بھی آپ کو ضرور علم ہو گا جسکو عرف عام میں ہم "خوشامدی ٹولہ" کا نام دیتے ہیں۔ اگر آپ خوشامد اور اس خوشامدی ٹولے کی تاریخ میں جائیں تو یہ آپ کو بہت طویل ملے گی جو کہ ہر دور میں مختلف طریقوں سے رائج رہی۔ انسانی تاریخ میں ان گنت لوگ آئے، آباد ہوئے، اپنے حصہ کی زندگی جی اور پھر باری باری صفحہ ہستی سے ناپید ہوتے چلے گئے۔ علی ہذا القیاس کئی بادشاہتیں قائم ہوئیں اپنی باری لی اور چلتی بنیں۔
بالکل اسی طرح ہر دور میں اک خوشامدی ٹولہ بنا، اپنے حصہ کی چاپلوسی کی، اپنا الو سیدھا کیا اور پھر رفو چکر۔ اک بات ذہن نشین کر لیں کہ جو بادشاہ یا حکمران میرٹ پر آیا ہو جس نے بادشاہ یا حکمران بننے کے لیے زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھے ہوں، جو زندگی کی صعوبتیں جھیل کر آیا ہو اس کے دور میں یہ خوشامدی ٹولہ بہت کم پنپے گا کیونکہ اک اصل حکمران اس ٹولے کو بخوبی جانتا اور پہچانتا ہو گا۔ جب کہ اس کہ بر عکس جو بھی بادشاہ یا حکمران حادثاتی طور پر تخت نشین ہوا ہو گا اس کے دور میں اس کیٹیگری کے لوگ خوب پھلے پھولیں گے۔ اکثر جب بھی بادشاہت یا جمہوری سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یونان کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔
اسطرح آپ یونانی تاریخ میں بھی دیکھیں تو یہ لوگ آپ کو وہاں بھی موجود ملیں گے۔ سقراط جیسے فلسفی جنہوں نے مستقبل کے پیشِ نظر جب تلخ حقیقت کا آئینہ تب کے حکمرانوں کو دکھایا تو وہ اس کے درپے ہو گئے جس کی وجہ سے سقراط کو مقدموں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے نظریات سے منحرف نہ ہوا اور اس نے زہر کا پیالہ پر کر اپنی زندگی کا خاتمہ تو کر لیا لیکن اپنے نظریات کو رہتی دنیا تک زندہ کر گیا۔ دوسری جانب جو بھی خوشامدی ٹولے آئے انہوں نے وقتی فائدے تو حاصل کیے لیکن آنے والی دنیا میں اپنے ماتھے پر کلنگ لگا گئے۔ اور جن حکمرانوں نے ان خوشامدی ٹولے سے دوری اختیار کی انکی حکمرانی کا دور آج بھی سنہرا دور گردانا جاتا ہے۔ آپ شیر شاہ سوری کا دور ملاحظہ کر لیں یا ظہیر الدین بابر کے مختصر دور کو دیکھ لیں ان میں حکمرانی اور انتظامیہ کی اک بے مثال جھلک نظر آئے گی۔ اس پس منظر میں پاکستان سیاست بھی مختلف نہیں۔ آپ کو پاکستانی سیاست مختلف ادوار کے خوشامدیوں سے لت پت نظر آئے گی۔ چند دن پہلے وفاقی بجٹ پیش کیا جا رہا تھا جس کے دوران کی اک چھوٹی سی ویڈیو آج کل بہت وائرل ہوئی جس میں حکومتی ارکان میں سے اک ایم۔این۔اے غالباً پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر پر کچھ نازیبا الفاظ استعمال کر رہا تھا اور اس کے ساتھ بیٹھے امین گنڈا پور اور پیچھے بیٹھی زرتاج گل اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اس رکن کی خوب حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔
قیام پاکستان سے لیکر آج تک کئی ایسے ارکان، کئی امین گنڈا پور اور ان گنت زرتاج گلیں آئیں اور گئیں جنکا آج کسی کو نام تک معلوم نہیں۔ یہ حکومتی ارکان شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ انکا دور ہمیشہ ایسے ہی رہے گا، یہ ہمیشہ یہیں براجمان رہیں گے، اور ایسے ہی جملے بازی کرتے رہیں گے اور ان عوام جن کے ووٹ سے یہ حضرات یہاں بیٹھے ہیں انکا چاہے کچومر نکل جائے اسکی انہیں کوئی فکر نہیں۔ ان کو شاید پتہ نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے موجودہ دور کی سپر پاور کا بھی اک صدر ہوا کرتا تھا۔ وہ اور اس کے اہل و عیال بھی اسی طرح مغرور تھے جو کہ نفرت کے بیج بو کر سمجھتے تھے کہ اگلا الیکشن بھی انہیں کا بلکہ اب وہ ہمیشہ ہمیشہ ایسے ہی ان محلوں میں اللے تللے کرتے رہیں گے۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ وہ چار سال کا عرصہ جو انکو صدیوں کی طرح لگ رہا تھا وہ پل جھپکتے ہی ختم ہو گیا اور جب وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ تخت حکمرانی سے سبکدوش ہو رہے تھے تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور پل جھپکتے ہی جہاں ان کو حکم چلتا تھا وہاں کوئی اور تخت نشین ہو گیا۔
بات خوشامدی ٹولہ سے نکلتے نکلتے کہاں پہنچ گئی۔ ہم بات کر رہے تھے پاکستان کی سیاست میں اس خاص قسم کے گروہ کی جو کہ ہر دور میں موجود رہا کبھی زیادہ کبھی کم ۔ "شہاب نامہ" میں اک جگہ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ غالباً اسے کہیں سے ہندو مسلم فسادات کروانے کی سازش کے بارے میں علم ہوا تو مسلمان ہونے کے ناطے یہ خبر بذات خود قائد اعظم محمد علی جناح کو پہنچانا انہوں نے اپنا فرض سمجھا۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ جب میں جناح صاحب کے دفتر میں گیا اور یہ ہنگامی خبر انہیں سنائی اور سوچا کہ بدلے میں خوب شاباش ملے گی لیکن جب میں اتنے جوش کے ساتھ خبر سنا رہا تھا تو جناح صاحب بڑے تحمل کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھے منہ میں سگار لیے اور اپنا کام کرتے ہوئے میری خبر سنتے رہے۔ جب میں نے ختم کیا تو بولے آپ ایک پبلک سرونٹ ہیں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے یہ آپ کے فرائض کے خلاف ہے۔ اس اک چھوٹے سے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ اک منجھے ہوئے لیڈر اور اک حادثاتی حکمران میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں تو سیاسی حکمرانی کی اک ایسی کھینچا تانی شروع ہوئی جس نے ملکی سیاست میں جمہوریت کو پروان ہی نہ چڑھنے دیا۔ اس کے بعد ایوب خان نے جمہوریت کو ایسا تار تار کیا جس کے اثرات آج تک دکھائی دیتے ہیں۔ جب ایوب خان پاکستان کا حکمران بنا تو اک خاص قسم کا طبقہ اس کے ارد گرد آ گیا اور اپنی اپنی بین بجانا شروع کر دی۔ ان میں سے کئیوں نے کہا کہ اگر جناب تخت نشین نہ ہوتے تو ملک ٹوٹ جاتا یا انڈیا واپس اسکو اپنے ساتھ ضم کر لیتا۔ یہ نہیں کہ سب کے سب خوشامدی تھے بلکہ کئی اعلیٰ پائے کے لوگ بھی ایوب دور میں ان کے دست راست تھے لیکن شاید انکی تعداد بہت کم ہو مثال کے طور پر ملک امیر محمد خان المعروف نواب آف کالا باغ۔
وہ اک بارعب شخصیت کا مالک تھا اور کبھی کبھی ایوب خان کی غلطیوں کی بھی نشاندھی کردیتا تھا۔ دوسری جانب یہ بھی سننے میں آیا کہ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتا تھا اگر یہ سچ ہے تو آپ اس۔۔۔۔۔۔۔کا خود اندازہ لگا لیں۔ ایوب خان نے جاتے جاتے اقتدار یحیٰی خان کے حوالے کیا جس نے دوسری بار پاکستان میں مارشل لاء لگا دیا اور حادثاتی طور پر اقتدار ملنے کی وجہ سے اس کے تو حواس بھی قائم نہ رہے۔ پہلے جہاں خوشامدی ٹولے میں زیادہ تر مرد حضرات تھے تو اب کی بار اس ٹولے میں صنف نازک کا بھی اضافہ ہوا۔ گجرانوالہ کے مضافات میں رہنے والی اک عورت جس کو بعد میں جنرل رانی کے نام سے جانا گیا نے اس فیلڈ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہاں تک کہ اک بار ایران کا بادشاہ نے واپس جانے کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن یحیٰی خان اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل رہے تھے اور کسی کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی کہ اندر جا کر موصوف کو اطلاع دی جائے۔ لہذا یہ زمہ داری بھی جنرل رانی کو سونپی گئی کہ آپ ہی یہ کام کر سکتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ اندر گئی تو جنرل صاحب کسی اور موصوفہ کے ساتھ تھے۔ خیر اس دور کی عیاشی اور چاپلوسی کے عوض ملک دو لخت ہو گیا۔ اب کی بار ملکی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی۔ بھٹو ضرور اک اچھا لیڈر بنا اور اس میں سابقہ حکمرانوں کی نسبت خوبیاں بھی زیادہ تھیں لیکن پھر بھی یہ ان ہتھکنڈوں سے بچ نہ سکا۔ اس کو بھی پتہ نہیں چاپلوسوں نے کیا کیا بنا کر پیش نہیں کیا۔ بھٹو کو بھی کہا گیا کہ آپ نے آئین پاکستان متعارف کروایا ہے اور جمہوریت کی راہ ہموار کی ہے اس لیے اب آپ اصل میں حکمرانی کے لائق ہیں۔ پاکستانی سیاست میں آپکا کوئی ثانی نہیں شاید اسی وجہ سے بھٹو اوور کانفیڈنٹ ہوگیا اور وقت سے پہلے اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق نے کرسی صدارت سنبھالی اور نوے دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا جو کہ گیارہ سال تک طول پکڑ گیا۔ اسی دوران موجودہ دور کے سیاستدان نواز شریف (جو کہ سنا ہے اب نظریاتی بن گئے ہیں) ملکی سیاست میں نمودار ہوئے۔ پہلے پہل تو تحریک استقلال میں آنے کا ارادہ کیا لیکن جب پتا چلا کی یہاں کوئی مفاد نہیں ملنا تو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہو لیے اور اک فوجی جنرل کے ساتھ ملکر کر جمہوریت سیکھنا شروع کی۔ اس بار جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کی تحریک کو خوشامدی ٹولے نے خوب سراہا اور داد سمیٹی۔ بعد میں یہی خوشامدی تحریک پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے ہوتی ہوئی مشرف دور تک آ پہنچی۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سوائے کم ہونے کے اس ٹولے میں لوگ جوق در جوق داخل ہوتے گئے۔ پہلے پہل اس میں چند قریبی لوگ شامل ہوتے تھے۔ پھر صنف نازک آ گئ اور یہاں سے ہوتی ہوئی خوشامد اب صحافیوں، بیوروکریسی اور یہاں تک کہ مذہبی حلقوں تک پہنچ گئی۔ دور حاضر میں آپ دیکھ لیں کہ پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت کے پاس اک ایسا ٹولہ ضرور موجود ہے جو کہ بجائے اپنے حکمرانوں کو اصل تصویر دکھانے کے، ان کے کہے ہو سفید جھوٹ کو سچ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ آپ پاکستان پیپلز پارٹی کی مثال لے لیں کہ جو عشروں سے سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے لیکن آج تک تھر میں گرمی اور صحرا کے مارے بیچاروں کو پانی تک نصیب نہیں ہو سکا۔ کراچی جس کو روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا تھا اگر یہی حال رہا جو ہے تو وہ دن دور نہیں کہ اس کو کوڑے کے شہر کے نام سے جانا جائے۔ ہر سال این۔ایف۔سی ایوارڈ کے تحت اپنے حصہ کا بجٹ لینے کے باوجود سندھ کا حال یہ ہے کہ وہاں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہیں ہے۔ وہاں اک دو دن بارش آ جائے کراچی برا حال ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے پاس اک ایسا گروہ موجود ہے جو کچرے کو سونا بنا کر پیش کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس گروہ میں شہلا رضا، سعید غنی، ناصر شاہ اور مراد شاہ پیش پیش ہیں۔
دوسری جانب آپ آ جائیں پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ نے پنجاب میں بہت کام کروائے انہوں نے روڑ بنوائے، ہسپتالوں میں کام کروائے، موٹر وے بنوائی، میٹرو بس اور اورنج ٹرین بنوائی۔ لیکن ان کے ان کاموں کے قرضوں کے عوض ملک تو نیچے جاتا گیا لیکن ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے لاہور میں تو ڈیویلپمنٹ کروا لی لیکن بقیہ سارے پنجاب کو نظر انداز کر دیا۔ کیا جنوبی پنجاب اسکا حصہ نہیں؟ کیا انکو روزگار, تعلیم اور صحت کی سہولیات نہیں ملنی چاہیے؟ جب ان سے ان کے اثاثوں اور ایون فیلڈ کے متعلق پوچھو تو انہی خوشامدی لوگوں میں سے کئی چہرے نمودار ہوتے ہیں جو کہ باقی تو سارے لوگوں کی اور ملکی تفصیلات گنوا دیتے ہیں لیکن شریف فیملی کے اثاثوں کے بارے اک لفظ نہیں۔ اس ٹولے میں سر فہرست طلال چوہدری، مریم اورنگزیب، عطاء تارڑ، اور حنا پرویز جیسے لوگ شامل ہیں۔ آخر میں آ جائیں موجودہ حکمران جماعت کی جانب۔۔۔۔یہ بھی اس حمام میں اسی طرح ننگے ہیں جیسے دوسری جماعتیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کی عمران خان پر شریف یا زرداری فیملی کی طرح مالی خرد برد کے الزامات نہیں لیکن اب موجودہ دور میں ان کی حکومت میں بھی کئی کٹے کھل چکے ہیں جن میں روالپنڈی رنگ روڈ، آٹا اور چینی سکینڈل سر فہرست ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کے خوشامدی بھی باقی جماعتوں کے سارے کٹھے چٹے کھول کر رکھ دیں گے لیکن جب بات اپنے پر آئے گی تو آئیں بائیں چھائیں کر جائیں گے۔
یہ لوگ جتنی تیاری دوسری جماعتوں کی کرپشن کہانیوں کی کر کے آتے ہیں اس سے آدھی بھی اپنی وزارت کے پورٹ فولیو کی کر لیتے تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ یہ بجائے چاپلوسی اور خوشامد کے اگر عمران خان کو حقیقت بتاتے تو آج غریب عوام اس طرح مہنگائی کی چکی میں نہ پس رہے ہوتے۔ عمران خان کو اس بات کا خود احساس ہونا چاہیے کہ جو لوگ دن رات اس کے آگے پیچھے پھرتے اور جی حضوری کررہے ہیں یہ اصل میں اس کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہیں۔ اسکو اس بارے میں ٹھوس انتظامات کرنے چاہیے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور یہ عارضی اقتدار چلتا بنے۔
0 Comments