ان کا اصل نام اخمد شاہ خان تھا اور ابدالی ان کہ قبیلے کا نام تھا۔
اخمد شاہ ابدالی ایک نیک دل ایماندار اور نیک سیرت مسلم خکمران تھے۔اخمد شاہ ابدالی کو 20 سال کی عمر میں قندھار کہ گورنر نے ان کہ بھائی سمیت قید کر لیاتھا اس دوران ایران کہ بادشاہ نادر شاہ نے قندھار پر خملہ کیا اور قندھار ریاست کو فتخ کر لیا نادر شاہ کی ملاقات اخمد شاہ ابدالی سے ہوئی نادر شاہ اخمد شاہ ابدالی کی شخصیت سے بے خد متاثر ہوئے اور ان کو قید سے آزاد کر کہ اپنے ساتھ اپنی فوج میں شامل کر لیا ۔
1739 عیسویں میں مغل سلطنت کہ خکمران اورنگزیب عالمگیر خان کا انتقال ہو گیا اور نادر شاہ کو لگا اب مغل سلطنت کمزار ہو گئی ہے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئی نادرشاہ نے ہندوستان پر خملہ کر لیا اور فتخ خاصل کر لی اور نادر شاہ نے اخمد شاہ درانی کو ریاست خیدرآباد دکن کا گورنر بنا دیا ۔
یوں وقت چلتا رہا اور ایک دن اخمد شاہ درانی کی ملاقات نظام الملک آصف جہاں سے ہوئی جو اپنی عقلمندی اور پیشنگوئیوں کی وجہ سے مشہور تھے انہوں نے اخمدشاہ درانی کو کہا آپ ایک دن بادشاہ بنو گے۔
اور یہ خبر نادر شاہ تک پہنچ گئی انہوں نے اخمد شاہ درانی کو اپنے پاس بلوایا اور اپنی تلوار سے ان کہ کان پر زخم کا نشان لگاتے ہوئے کہا مجھے آپ کی عقلمندی اور زہانت پر پورہ بھروسہ ہے اس لیے تم ضرور ایک دن بادشاہ کا اعزاز خاصل کرو گے مگر میرے ساتھ ایک وعدہ کرو کہ آپ بادشاہ بننے کہ بعد میری آل اولاد سے اچھا سلوک کرو گے اخمد شاہ درانی نے وعدہ کر لیا اور اسے بعد میں نبایا بھی۔
یوں وقت چلتا رہا اخمد شاہ درانی اپنے گورنر کہ عہدے پر فائز رہے
نادر شاہ کی غلط پالیسیوں اور ظالمانہ اقدام کی وجہ سے ان کی اپنی فوج میں بغاوت پیدا ہو گئی اور 1747 عیسویں میں نادر شاہ کو ان کہ اپنے ہی مخافظوں نے قتل کر دیا ۔
جب اخمد شاہ درانی کو اپنے مخسن کہ قتل کی خبر پہنچی تو انہوں نے ایرانی فوج میں موجود اپنے چند ہزار افغانی فوجیوں کو اپنے ساتھ لیا اور واپس اپنے افغانستان آ گئے۔
اور اکتوبر 1747 میں افغان سرداروں اور قبائل نے ایک جرگے میں متفقہ طور پر اخمد شاہ درانی کو افغانستان کا بادشاہ مقرر کر لیا۔
اخمد شاہ ابدالی نے تخت سمبھالتے ہی کندھار پر خملہ کیا اور ایرانی سلطنت سے آزادی خاصل کر کہ نئی افغان ریاست کی بنیاد رکھی قابل غزنی پشاور کو فتخ کرنے کہ بعد اپنی فتوخات کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے 1748 تک لاہورپہنچ گئے۔
اس وقت ہندوستان میں مغل سلطنت کمزور پڑھ چکی تھی اور مراٹھوں کی طاقت دن بدن بڑھ رہی تھی تب وہاں کہ مسلم خکمرانوں نے اخمد شاہ ابدالی کو خط لکھا کہ اس سے پہلے کہ مراٹھ پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیں آپ ہماری مدد کہ لیے آ جائیں۔اخمد شاہ درانی کو جب یہ پیغام پہنچا تو وہ اپنے 40 ہزار کہ فوج کہ دستے کہ ساتھ ہندوستان میں داخل ہو گئے اور دہلی پہنچنے سے پہلے ہی ان کا سامنا مراٹھ فوج سے ہوا اور اخمد شاہ درانی کو شکست ہو گئی۔
اس شکست کہ بعد اخمد شاہ درانی کو یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ بہت خطرناک اور جنگجو قوم ہے اسے آسانی سے شکست نہیں دی جاسکتے اس کہ لیے اخمد شاہ ابدالی نے ایک پلان کہ تخت مراٹھ فوج کو چاروں طرف سے گھیرا اور ان کہ فوجی ساز وسامان اور ہوراک پہنچانے کہ راستے بند کر دیے اور پوری تیاری کہ ساتھ اپنی فوج لے کر ایک بار پھر ہندوستان میں داخل ہوئی جہاں انکا مقابلہ پانی پت نامی جگہ پر مراٹھ فوج سے ہوا جہاں اخمد شاہ ابدالی نے مراٹھ فوج کو تاریخی شکست دی اس لڑائی میں ایک لاکھ تک ہندو مارے گئے کئی زخمی ہوئی کچھ کو قیدی بنا لیا تو کوئی میدان جنگ سے ہی بھاگ نکلے تھے۔
اس وقت مراٹھوں کہ پیشوا بالاجی راو تھے اور انہوں نے اپنی فوج کی کمان اپنے ببیٹے اور بھائی کو دے رکھی تھی جہاں یہ دونوں اس جنگ میں مارے جا چکے تھے دوسری طرف بالاجی راو اپنی ایک اور فوج کہ ساتھ آرہے تھے جیسے ہی ان کو خبر ملی کہ ان کا بھائی اور بیٹا مارا جا چکا ہے ان کی فوج کو شکست ہو گئی ہے تو وہی سے ہی واپس بھاگ گئے۔اور یوں اخمد شاہ درانی نے یہ جنگ جیت لی اور شاہ عالم ثانی کو ہندوستان کا بادشاہ بنا کر خود واپس افغانستان آ گئے کیونکہ انکو اقتدار کی لالچ نہیں تھی اور مراٹھوں کو نصیخت کی کہ وہ مغل سلطنت کہ وفادار بن کر رہیں۔
اخمد شاہ درانی نے لاہور ملتان سندھ بلوچستان کشمیر کو ملا کر ایک ریاست بنائی جس میں ہراسان بھی شامل تھا جو موجودہ ایران میں ہے اور اس ریاست کو درانی سلطنت کا نام دیا یہ درانی سلطنت 1973 تک قائم رہی۔
درانی سلطنت کا نقشہ👇
23 اکتوبر 1772کو اخمد شاہ درانی 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے اور ان کا بیٹا تیمور شاہ تخت نشین ہو گیا۔
لیکن 2019 میں ایک انڈین فلم پانی پت میں یہ دکھایا گیا کہ اخمد شاہ درانی ایک ظالم اور عیاش خکمران تھے اور پانی پت کہ مقام پر لڑی جانے والی لڑائی میں شکست کھا گئے تھے۔
1 Comments
👍👍👍👍👍
ReplyDelete