کریمہ بلوچ کی موت سے قبل اپنی دوست سے وٹس ایپ پر آخری گفتگو. جو کہ بلوچی میں ہے، اس کا اردو ترجمہ حاضر ہے.
کریمہ بلوچ کی آخری خواہش تھی کہ وہ وطن واپس آنا چاہتی تھی، وہ لکھتی ہیں کہ میں اب بوڑھی ہو رہی ہوں لیکن بڑھاپا کوئی مسئلہ نہیں، مگر میں اپنے وطن میں مرنا چاہتی ہوں، پردیس میں نہیں، وہاں تمپ میں میرے اپنوں کا قبرستان ہے، مجھے وہاں اپنے گھر کی یاد آتی ہے، میرے سکول کی یاد آتی ہے، وہاں کے لوگوں کی یاد آتی ہے، میں ہمیشہ اپنی سہیلیوں سے ہنسی مذاق کرتی, کہ اگر ہم مر جائیں
تو ہماری قبریں پاس پاس بنائی جائیں
وہاں بھی ہم ایک دوسرے سے دور نہ ہوں
رات کو قبروں سے باہر نکلیں گے، اور دیوان کریں گے.
اس پیغام سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ کریمہ بلوچ جلد ہی وطن واپسی کرنے والی تھیں یا کم از کم وطن کی محبت کریمہ کے دل میں چنگاری مار چکی تھی شاید وہ اب تھک چکی تھی، ایسے میں کریمہ کی موت کے بعد اسکی کینڈین دوست کا یہ کہنا کہ اسے بھارتی ایجنسی را کی طرف سے ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں نام آنے کے بعد خاموش رہنے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی تھیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ کریمہ بے نقاب ہونے کے بعد زبان کھول سکتی ہے جس کے بعد بلوچوں کے نام پہ چلنے والی نام نہاد بلوچ تنظیموں بلکہ پی ٹی ایم کو بھی بہترین دھچکہ لگتا اسی لیے را نے کریمہ کو خاموش کروا دیا.
ایک بات پھر سے کہہ دوں کہ بہت سے لوگ اب واپسی چاہتے ہیں، پاکستان کے خلاف گند کرنے والے خود ہی پھنس چکے ہیں اگر پاکستان کی طرف آتے ہیں تو را انہیں نہیں چھوڑے گی انکی پہلے ہی بہت بڑی انویسٹمنٹ ڈوب چکی ہے اب مزید نہیں ڈبونا چاہیں گے ان کو چھوڑ کر، اس لیے ان سے کام لیکر ان سب کو خاموش کروائیں گے ان شاءاللہ. اب جن کو یہ خارش ہے کہ اسے پاکستان نے مروایا ہے تو کریمہ کی واپسی پاکستان کے فائدے میں تھی موت نہیں، اسکی موت کا فائدہ صرف بھارت کو ہواااا.
0 Comments