مولانا روم لکھتے ہیں کہ
دُنیا سے بے نیاز زمانے سے بے خبر
ایک فقیر جنگل میں رہا کرتے تھے
ایک دن ایک کُتا پھرتے پھراتے ان کے در پر آیا تو فقیر نے اس کی خوب تواضع کی . کُتے کو فقیر کا در پسند آ گیا اور اس نے آوارہ گردی چھوڑ کر وہیں ڈیرہ ڈال لیا . اب کُتے کو بغیر مُشقت کے تین وقت کا کھانا مِلنے لگا اور کُتا خوش باش فقیر کے در پر بسیرا کرنے لگا .. ایک رات فقیر مشغولِ عبادت تھے کہ کُتے کے بھونکنے کی آواز آئی . فقیر اُٹھ کر باہر گیا کہ شائد کوئ چور ہے باہر جا کر دیکھا کہ کُتا ویسے ہی بھونک رہا ہے تو واپس آ کر دوبارہ مشغولِ عبادت ہو گئے اُس رات کُتے نے متعدد بار یہی عمل دُھرایا اور ہر دفعہ فقیر عبادت چُھوڑ کر باہر دروازے تک گئے .
آخر کار فقیر کو غُصہ آ گیا کہ یہ بلا وجہ بھونک کر عبادت میں مخل ہو رہا ہے اور اپنا ڈنڈا کُتے کو دے مارا جو کُتے کی ٹانگ پر لگا اور تھوڑی دیر چؤں چؤں کرنے کے بعد کُتا خاموش ہو گیا .. اگلے دن فقیر ضروری سودا سلف لینے کے لئے شہر کی طرف نکلے تو کُتا بھی لنگڑاتا لنگڑاتا ساتھ ہو لیا .. فقیر شہر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک جگہ بیس پچیس لوگ جمع ہو کر نیچے بیٹھے ہیں اور اپنے سامنے تخت پر ایک کُتے کو بٹھا رکھا ہے اور انواع و اقسام کے کھانے اس کے سامنے پڑے ہیں فقیر نے رُک کر سارا ماجرا دیکھا اور اُن سے پوچھا کہ بھئ یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ اشرفُ المخلوقات ہو کر نیچے بیٹھے ہیں اور ایک کُتے کو تخت پر بٹھایا ہوا ہے . ایک نے جواب دیا کہ بابا جی کچھ نہ پوچھو .
رات کو ہم گھر والے بڑی بے فکری سے گہری نیند سو رہے تھے کہ ہمارے گھر میں چور آ گئے اور ہمیں کچھ خبر نہ ہوئ البتہ ہمارے کُتے نے اُنہیں دیکھ لیا اور بھونکنا شروع کر دیا جس سے ہماری آنکھ کُھل گئ اور چور گھر کا سارا سامان چھوڑ کر بھاگ گئے . چونکہ کُتے کے بھونکنے کی وجہ سے ہم بہت بڑے نقصان سے بچے ہیں لہذا بطورِ انعام کُتے کی سیوا کر رہے ہیں .. .. گل بات سُن کر فقیر چل دیئے اور تھوڑا آگے جا کر " اپنے "کُتے سے مخاطب ہوئے اوئے دیکھ !!
" جو دیکھ کر بھونکتے ہیں اُن کی اس طرح خدمت ہوتی ہے اور جو تیری طرح بِن دیکھے ہی بھونکتے ہیں وہ ہمیشہ اپنی ٹانگیں ہی تڑواتے ہیں "
عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔۔
تخریر عمالقہ حیدر
Sun 25 Apr 2021
0 Comments