PM Imran Khan |
جب تک وہ کرکٹ کے میدانوں کا سلطان تھا تو ہماری قوم اسے فخر پاکستان، ہماری شان، ہمارا شہزادہ، ہمارا غرور جیسے القابات سے پکارتی تھی اور اسکی ہر ایک پکار پر آنکھ بند کر کہ لبیک کہتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال کے لیے انے واہ اپنی جیبیں خالی کر دی. حالانکہ اس وقت وہ کرکٹ صرف اپنی ذات کے لیے کھیلتا تھا اور قوم کو اس سے براہ راست کوئی فائدہ
نہیں تھا ماسوائے تھوڑی سی وقتی خوشی کے
مگر پھر جب اس نے قوم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے میدان سیاست میں قدم رکھا تو وہی شخص جسے قوم سلطان، شہزادہ اور فخر پاکستان کہہ کر پکارا کرتی تھی اب نشئی، کوکینی، زانی، یہودی، قادیانی اور غلیظ گالیوں سے پکارنا شروع ہو گئی. کیونکہ اس مرتبہ وہ اپنی ذاتی مفاد کے بجائے قوم کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا چاہتا تھا مگر میری قوم کی نفسیات ہے کہ جس کسی نے بھی اس کی بھلائی کا سوچا تو وہ سب سے پہلے اسکی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں.
اسکی مثال بچپن سے ہی لے لیں کہ جب جب ہمارے والدین ہمیں غلط راستوں کے انتخاب پر ٹوکتے تھے تو ہم ان کی رائے کے خلاف جا کر بغاوت تک کے لیے تیار ہو جاتے تھے حالانکہ ہمارے والدین ہماری ہی بھلائی کے لیے سوچتے تھے مگر وہ چونکہ ہمارے مفاد میں سوچتے تھے اس لیے ہمیں یہ قبول نہیں.
اگر تم پچھلے چالیس سال سے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلزپارٹی، تیس سال سے "بس ایک بار اور وزیراعظم بنا دو تو ملک کی تقدیر بدل دوں گا" کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ، پچھلے ستر سال سے اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ لگانے والی جمیعت علماء اسلام کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے تو پھر میں فقط ڈھائی سال میں اس شخص کی حمایت سے کیسے دستبردار ہو جاؤں جس کی زندگی کا مقصد ہی میری آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانا ہے.
تخریر ۔عمالقہ خیدر
Sat 24 Apr 2021
0 Comments