"73 کے بعد کے آئین کے مطابق"
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر کام غیر اسلامی ہو گا
سود کو سرکاری سرپرستی حاصل رہے گی اور بینکاری نظام اسی بنیادوں پر چلایا جائے گا
عدالتیں انصاف کے علاؤہ سب کچھ کریں گی
افسر شاہی عوام سے اپنی خدمت کروائے گی اور عوام الناس کو ذلیل و خوار کرنا اس کابنیادی حق تسلیم کیا جائے گا
چھوٹے موٹے جرائم کرنے والوں کو ریاست عبرت کا نشانہ بنا دے گی
مگر بڑے ڈاکے ڈالنے والوں، اربوں کی چوریوں اور لوٹ مار کرنے والوں کو ریاست پروٹوکول دے گی
جو جتنا بڑا مجرم ہو گا
وہ اتنا ہی زیادہ معزز ٹھہرایا جائے گا
پولیس سیاستدانوں کی ذاتی خدمت پر مامور رہے گی
پولیس افسران سیاست دانوں کے بچوں کی بھی غلامی کرتے رہیں گے
قومی زبان اردو صرف بولنے کی حد تک رہے گی
دفتری زبان انگریزی ہی رہے گی تاکہ انگریز آقاؤں سے وفاداری کو یقینی بنایا جا سکے
انگریزی زبان اس لئے بھی لازم رہے گی تاکہ اس ملک کے عوام کو ان کی اصل اوقات میں رکھا جا سکے ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جائے گا تاکہ سرکاری اہلکاروں کی آمدنی پہ کوئی فرق نا پڑے
زیادہ تر ٹیکسز باالواسطہ وصول کیے جائیں گے
اشرافیہ کو ٹیکس چوری میں معاونت فراہم کی جائے گی
سرکاری اہلکار انہیں مفید مشوروں سے نواز کر اپنی زندگیاں بہتر بنا سکیں گے
ملک میں تعلیم ،صحت اور انصاف پر کوئی حکومت توجہ نہیں دے گی
اگر عام آدمی کی حالت یا حالات بہتر ہوئے تو حکمران طبقہ حکومت کس پہ کرے گا ؟
عوام کو دبا کر رکھنے کیلئے تعلیم ،صحت اور انصاف کا نظام ہمیشہ ابتر حالت میں رکھا جائے گا
ریاست عوام کو ذلیل کرنے کیلئے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو استعمال کر سکے گی
افسر شاہی، جرنیل، ججز، سیاستدان اور ٹیکس چور صنعتکاروں کو ملک میں خصوصی حیثیت حاصل رہے گی
ملک لوٹنے کے ساتھ ساتھ انہیں بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور اپنے بیوی بچے باہر رکھنے کی اجازت ہو گی
ریٹائرمنٹ کے بعد تو ان کا پاکستان میں رہنا باقاعدہ جرم تصور کیا جائے گا
ان سب کو پاکستان میں ملازمت کے ساتھ ساتھ بیک وقت غیر ملکی شہریت لینے کی بھی اجازت ہو گی
ملک میں ملاوٹ شدہ اور مضر صحت اشیاء بیچنے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی
اس کا مقصد ایک بیمار معاشرے کے تشکیل میں مدد حاصل کرنا ہے
تاجر اور صنعتکار کو اپنی مصنوعات من چاہی قیمتوں پر بیچنے کی مکمل آزادی ہو گی
ریاست چھوٹے جرم کو بہت بڑا جرم اور بڑے جرم کو کارنامہ تصور کرے گی
ریاست اس ملک کو بار بار لوٹنے والوں کو تجربے کی بنیاد پر دوبارہ دوبارہ لوٹنے کا موقع فراہم کرے گی
اس کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کیا جاتا رہے گا
ججز کسی کو جوابدہ نہیں ہوں گے جبکہ وہ خود صدر اور وزیراعظم سمیت کسی سے بھی جواب طلبی کر سکیں گے
ریاست دہشت گرد گروہوں، فرقہ پرستوں، انتہا پسند تنظیموں، لسانی و صوبائی جماعتوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گی
ملک سے غداری کرنے والا اگر بڑا آدمی ہو گا تو ملک کے مفاد پر سمجھوتا کیا جائے گا
اور اگر کوئی عام ادمی ایسا کرے گا تو اس کی لاش کسی ویرانے سے ملے گی
ریاست جتھوں کے آگے ہمیشہ گھٹنے ٹیک دے گی
ریاست عام آدمی کی بہتری کیلئے کوئی قدم جان بوجھ کر نہیں اٹھائے گی
اگر بیرونی دباؤ یا ووٹ کے حصول کیلئے ایسا کرنا پڑا تو اس کیلئے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جائے گا
تاکہ عوام اپنا کیا خود بھگت سکےریاست اپنے وفاداروں کیلئے آزمائش اور غداروں کیلئے آسائش بنی رہے گی بیرون ملک قومی دولت لوٹ کر لے جانے والوں سے مکمل تعاون کیا جائے گا
اور اس دولت کی واپسی کو ہر صورت ناممکن بنانے کیلئے ریاستی ادارے مجرمان سے تعاون کریں گے
پاکستان کو انتہائی کوشش سے ترقی پذیر ہی رکھا جائے گا ریاست کبھی ماں جیسی نہیں بنے گی
ہمیشہ سوتیلی ماں کا کردار نبھاتی رہے گی
ٹیکس کا نظام اتنا مشکل اور پیچیدہ بنایا جائے گا کہ وکیل بھرتی کیے بغیر کوئی اپنی فایل مکمل ہی نا کر سکے
ایسا وکلا برادری کی فلاح و بہبود کیلئے کیا جائے گا
عدالتیں کیس چاہے اردو میں سنیں یا مقامی زبانوں میں فیصلے انگریزی میں ہی لکھے جائیں گے تاکہ وکلا اور عدالتی عملے کی روزی روٹی متاثر نا ہو
ملک کے نوے فیصد وسائل سے حکمران طبقہ مستفید ہو گا
جبکہ باقی دس فیصد پہ عوام کا حق تسلیم کیا جائے گا
ریاست کا مذہب اسلام ہو گا
جبکہ ریاست کے شہری دیوبندی،وہابی،بریلوی اور شیعہ بن کر رہیں گے تاکہ کبھی متحد نا ہو سکیں
ریاست سمجھتی ہے کہ متحد لوگ حکمران طبقے کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں
لہذا انہیں ، رنگ،نسل، ذات پات اور اونچ نیچ میں تقسیم رکھا جائے گا
ایسا کرنے سے حکمران طبقہ خوشحال اور مطمئن رہے گا
ریاست کی اصل ذمہ داری اشرافیہ کی پہرے داری ہے
ملک میں ہر قسم کے قوانین محض خانہ پری اور کاغذی سطح تک ہی رہیں گے
کبھی ان کا نفاذ عوامی سطح پر نہیں کیا جائے گا
ریاست کا ہر شہری اپنی حفاظت خود کرے گا تاکہ خود دار اور خودمختار ہو سکے
افسر شاہی اور حکمران طبقہ خود کو عوام کی پہنچ سے دور رکھے گا
یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام پر مکمل پابندی ہو گی
ریاست پوری کوشش کرے گی کہ عام آدمی کبھی روزی روٹی کی فکر سے باہر نا آ سکے
سیاست دان اسمبلی اجلاسوں میں قومی ایشوز پہ بات نہیں کر سکیں گے
صرف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے
ملک توڑنے کی باتیں کرنے والوں کو بھی عام جلسوں کی اجازت ہو گی
ریاست ایسے تمام کام کرے گی کہ جس کی مدد سے ملک کو کمزور رکھا جا سکے
ملک میں پڑھے لکھے اور قابل افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے گی
تاکہ نا اہل لوگوں کی حق تلفی نا ہو
ریاست چند اہل آفراد کو کروڑوں نا اہلوں پر غیر قانونی ترجیح نہیں دے گی
درج بالا تمام قوانین تحریر نا ہونے کے باوجود پریکٹس کئے جائیں گے
پاکستان زندہ باد !!
0 Comments