آن لائن نظام تعلیم,طلباء و اساتذہ کی مشکالت اور سمز کمپنیوں کی لوٹ مار۔۔۔
نومبر 2019 میں کورونا وباء چائنہ کا آغاز ہوا اور پھیلتے پھیلتے اس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا .فروری 2020 میں کورونا کا پہال مریض پاکستان میں تشخیص ہوا اور پھر یہ مرض پاکستان میں بھی پھیلنے لگا .14 مارچ 2020 کو حکومت پاکستان نے مکمل الک ڈاؤن کا آغاز کیا اور نظام تعلیم کا یونیورسٹی لیول میں آنالئن سسٹم کا آغاز کیا اور پھر کالج لیول سے ہوتے ہوئے اسسسٹم کو سکول لیول پر بھی نافذ کیا گیا.
اس کے متعلق بہت سی دلیلیں دی گئیں کہ پوری دنیا میں آن لائن سسٹم ہے نظام تعلیم کا اور وہ سب آن لائن پڑھتے ہیں اور امتحان اپنے مطلوبہ امتحان گاہ میں جا کر دے آتے ہیں لہذا پاکستان نے فیصلہ صحیح کیا ہے اس سےطلباء کا تعلیمی نقصان نہیں ہوگا .لیکن بدقسمتی سے کچھ مسائل ایسے آئے کہ ہماری گورنمنٹ نے سکول اور کالج لیول کے طلباءکو بغیر امتحانات کے پاس کرکے اگلی کالسز میں بٹھا دیا لیکن اس نظام کی وجہ سے آنے والے مسائل کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔۔۔
اگر آپ اسکول لیول کے طالب علم ہیں اور آن لائن سسٹم پر پڑھ رہے ہیں تو آپ کا ایک لیکچر کم سے کم 45 منٹس کا ہوتا ہے اورمسلسل 45 منٹس موبائل پر نظر ٹکا کر بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا.اسی طرح اگر آپ کالج اور یونیورسٹی لیول پر ہیں تو آپ کا ایک ایک لیکچر 1 سے 3 گھنٹے پر محیط ہو جاتا ہے جو کہ کافی زیادہ مشکل ہوتا ہے کہ مسلسل موبائل پر دیکھا جائےاس کے عالوہ انٹرنیٹ پر پھر کچھ ایسے انتہائی غیر مناسب ایڈز بھی آ جاتے ہیں جن سے طلباء کی توجہ متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ ایڈز اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ وہ طلباء کے سامنے پیش کیے جائیں۔۔
اب کچھ ایسے مسائل جن کا طلباء اور ان کے قابل احترام اساتذہ کرام کو سامنا کرنا پڑتا ہے اس آنالئن سسٹم میں سگنلز ایشوز سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ جب سگنل کا مسئلہ ہوگا اس کے بعد جب آپ کالس کے دوران بیٹھے ہیں تو اچانک سے کسی کا مائیک اوپن ہونے کی وجہ سے اس اس کے پیچھے ہونے والے شور سے بھی آپ ڈسٹرب ہوں گے اور آپ کی توجہ منتشر ہوجائے گی سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے آپ اور آپ کے اساتذہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے سے بھی قاصر ہو جائیں گے اور آپ کیلیےمسئلہ ہوگا۔
اسی طرح پھر جب آپ مسلسل موبائل پر دو سے تین گھنٹے دیکھیں گے تو آپ کی آنکھیں متاثر ہوں گی اسی طرح کچھ طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ایریاز میں سگنلز مناسب نہیں ہوتے تو وہ کلاسز نہیں لے پاتے اور کچھ طلباءایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف بہانہ کرتے ہیں کہ نیٹ کا مسئلہ ہے اس لیے کالس نہیں لے سکتے لیکن اس دوران لگے ہوتے ہیں وہ فلمیں دیکھنے یا پب جی جیسی لعنت ترین آن لائن گیم میں پہلی پہلی کلاسز کے بچوں کو آپ نے تعلیم کے بہانے موبائل پر لگا دیا ہے اور جب بچے کے ہاتھ میں موبائل ہو تو خود بھی چوکنا رہنا ہوتا ہے والدین کو کہ کہیں غلطی سے کوئی ایسا ویسا بٹن نہ دبا دے جس سے ان کیلیے مسئلہ ہو اور پھر بچے کو لگایا ہی ہےموبائل ہر تو بچہ وقت کے ساتھ ساتھ موبائل کا عادی ہوگا اور پھر موبائل کے بغیر اس کا رہنا مشکل ہو جائے گا اور وہ والدین کی گستاخی کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
اسی طرح جب آپ اس سسٹم میں آنالئن پیپرز دیں گے تو سگنلز کی وجہ سے پیپر آپ کو لیٹ مل سکتا ہے جس سے آپ پریشانی آپ طلباء کو ہو سکتی اور اسی طرح اگر آپ اپنے پیپر کو بروقت سبمٹ نہ کروا پائیں اپنے اساتذہ کو واٹس ایپ یا جی میل پر تو ان کی جانب سے فیل کرنے یا نمبرز کاٹے جانے کا الگ سے خوف ہوگا آپ کو اور جلدی سے لکھنے کی صورت میں غلط لکھ کر بھی نمبرز کٹوائیں گےجب آپ کو ٹیچرز کی سمجھ نہیں آئے گی تو آپ کے کانسیپٹس مکمل نہیں ہوں گے جو کہ آگے جا کر آپ کیلیے مسئلہ بنے گاانٹرویوز وغیرہ میں ٹیچرز کو الگ سے پریشانی ہوگی کہ آپ کا پیپر یا کالسز کی حاضری میں مسئلہ نہ بن جائے طلباء کو ان کی سمجھ آ رہی ہے یا نہیں بہت سے ایسے سواالت اٹھتے ہیں۔
اب آ جاتے ہیں کمپنیز کی لوٹ مار کی جانب..
جب اس وباء میں سارا نظام آنالئن ہوا تو ہمیشہ کی طرح جیسے ہوتا ہے کہ عوام کو لوٹنا ان فون سم کمپنیز نے بھی اپنے نیٹ پیکیجز کی اس طرح سے قیمتیں بڑھائی ہیں کہ غریب بندہ جو ایک دن کا 500 کمائے اس کی پہنچ سے دور گیا نیٹ پیکیج لگا کر اپنےبچوں کی تعلیم مکمل کرواناایسا پیکیج جو کورونا سے پہلے 260 روہے کا لگتا تھا اس ہی قیمت بڑھا کر 340 تک کر دی اور ٹیکسز بھی بڑھا دیے کہ ایک بندہ 400 روپے کا بیلنس کروائے تو اس کے پاس مطلوبہ بیلنس بھی پورا نہیں ہوتا اس کی وجہ سے اوپر سے پھر پیکیجز کے پیسے پورے لینا ہیں لیکن انٹرنیٹ کی سہولیات حد سے زیارہ گری ہوئیں کبھی کوئی مسئلہ آ رہا ہے تو کبھی کوئی مسئلہ آ رہا ہے اور اگر عوام شکایت کریں تو پھر جھوٹی بھی عوام ہی بنتی ہے.
اب ایسے طلباء جو پیکیجز لگائیں محنت مزدوری کرکے تاکہ ان کی تعلیم ہر نقصان نہ ہو جب وہ نیٹ اوپن کریں تو ان کے پاس نیٹ سگنلز ہی نہیں ان کا نقصان تو ہوگیاکافی نقصانات اور ہیں جو آئندہ کبھی زیر بحث الؤں گا لیکن اب یہاں اس جگہ پر میں ان لوگوں کو جواب دینا چاہتا ہوں جو یہ کہتےہیں کہ ساری دنیا آنالئن کرتی ہے آپ بھی کرو تو میرا ان سے سوال یہ ہے کہ آپ کے ملک میں کونسا انٹر نیٹ سروس اس قابل ہے۔۔
کہ دنیا کے مقابلے میں ہم بھی آنالئن چالئیں سارا نظام .دنیا آپ سے کتنی آگے ترقی کر چکی ہے ٹیکنالوجی میں لیکن آپ نے کون سی ایسی ترقی کی کہ آپ کے ملک کے کونے کونے میں انٹرنیٹ کی بہترین سروسز میسر ہوں جس سے طلباء کا تعلیمی نقصان نہ ہو اگر آپ اس قابل ہیں کہ اس سسٹم کو اتنا بہترین نہیں صرف دنیا کے مقابلہ میں پچاس فیصد ہی اچھا کر دیں تو بھی آپ کے طلباء اپنی غربت اور انٹرنیٹ مسائل کی بناء پر اس سسٹم میں پیچھے رہ جائیں گے.
0 Comments