شعور ہمارے معاشرے میں کافی سارے لوگ سمجھتے ییں شعور اور ضمیر ایک ہی نام ہے اور ایک ہی مطلب ہے ۔ ان دو لفظوں نے پورے معاشرے کو الجھا کر رکھ دیا ۔ ان الفاظ پر دلچسبی رکھنے والے ضمیر کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ضمیر ہمیں صحیح غلط کا تصحیح کرتا یے ۔ اور دوسری طرف شعور ہمیں آگاہی کی کیفیت سے آشنا کرتا ہے ۔ ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک وجہ کو ہم نے کیسے فرق کرنا ہے ایک دوسرے کو حقیقت میں جب ہم ایک دوسرے کی وضاحت کرنے کی کوششیں شروع کریں تو ہم ہمیشہ ایک سے محروم ہوجائیں گے ۔
ہم مزید کی کوشش کریں اور مزید ڈھونڈیں تو غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ غلطیاں کرنے سے آپ کو مستثنیٰ بہی نہی دیتے ، مصنفین ان لفظوں کہ تحریروں سے ہمیں الجھا دیتے ہیں اور ایسے الجھا ہوا اصلاحات دکھانا کوئی عام بات نہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان لاشعوری بے ضمیر اصلاحات میں فرق کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔ آیئے ان وجہوں کی وضاحت اور باریکیاں اور حصوصیات دیکھیتے ہیں ۔
بالفرض ہم نے شعور اور ضمیر کو علیحدہ کرکے عمومی بلکہ بنیادی تعریف کرنا ہڑا تو ہم مندرجہ ذیل وجوہات ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ آپ کی شعور ایک پر عزم حقیقت کا بہترین عزم کا حصہ بننا ہے تو یہ وہی چیز ہے جس کی مدد آپ کو آپ کی گہرائی داخلی عمل کو محرک کرنے میں بہترین مدد دیتی ہے ۔ اور یہ آپ کے ضمیر سے بالکل الگ تلگ ہے جو آپ کو اخلاقی برتری سکھاکر اسی برتری کا اجازت دیتا ہے ۔ اس الگ فرق کو آپ جب پڑھیں گے تو کچھ کو ان دونوں لفظوں کا فرق کرنا بالکل آسان لگے گا لیکن یہ سب باتیں اس تناظر میں ہے جب آپ اسی شرائط کے ساتھ ایک استعمال کرتے ہیں دوسرے کو الگ معنی و مطلب میں لیں گے ۔ عام طور پر یہ باتیں اس بات پرمحصر ہے کہ بولنے سُنے والا الگ الگ کوشش میں مصروف ہے سمجھنے کی کوشش میں ۔ ضمیر کیا ہے ؟
ہمارا ضمیر تو ایک بہترین کتان تھی جو ہمیں بہتر سے بہترین اخلاقی درس و تدریس دیتا ہے اور ہم اس کے مالک ہوسکتے ہیں ۔ اس بارے ہم غلط نہیں جب ہم کہہ رہے ہیں کہ ، اس وجہ سے مراد انسان کی قابلیت ہے اور ان کے خیالات آپ کے تاثرات سے آگاہ ہیں اور یہی بات ہمیں غلط سے صحیح کا راستہ دکھاتا ہے بلکہ اجازت دیتی ہے کہ ہم خود کے فیصلے خود کرسکیں ۔ آپ کے دھیان ضمیر یا تاثر جیسے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں اسی بات کو آپ نے فرق رکھنا ضروری ہے ۔ فلسفی ہمیشہ سابقہ کو فضیلت دیتا ہے لیکن فلسفیوں نے کوشش ضرور کی کہ ضمیر کا تعلق شعور سے کس لحاظ سے تعلق رکھتا ہے ۔ فکر و زبان کے عملیات ہی اور ذھانت سے ہمیں فرق ضرور دلاتا ہے کہ ضمیر و شعور یہی فرق ہے ۔ ہم کسی کے مضبوط اخلاقی اقدار کا اشارہ کس کو کہتے ہیں ؟
جس کے ضمیر مضبوط ہوں اخلاقی اقدار بہتر سے بہترین ہوں اور ہم ایسے لوگوں کو عزت اور توازن رکھنے والی جیسی خوبیوں کے مالک گردانتے ہیں ایسے ہی لوگ عزت اور خوبیوں سے بھر پور زندگی گزر بسر کرتے ہیں ۔ ضمیر یی تو ہے جو ہمیں انسانی خوبیاں یاد دلاتا ہے ۔ ہم اپنے شعور کو صرف بیدار رہنے اور آس پاس کی حقیقت قریب تر ہے اور یہی حقیقت واقفیت کی نمائندگی کرتا ہے ۔ضمیر اور شعور کی خصوصیات کو الگ الگ گردانے جانے والے کا نام بھی ایک بہتری شعور ہے ۔ شعور کا اخلاقیات یا اخلاق سے سے بالکل بہی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک ذاتی طور عمل ہے یہی وجہ ہے شعور کا ہونا یا آنے سے متعلق ان کے خیالات اور داخلی معاملات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ آگاہی حاصل کا نتیجہ ہے ۔ اس کا تعلق تو ایک مکمل فکر سے ہے ، یہی وجہ کہ یہ مستقلا بدلاؤ ہے اور رہتا ہے ۔
شعور مستقل تسلسل ہے جو رُکتا ہی نہیں یہ ہمیشہ کاروائی ، معلومات ، محرکات میں شامل ہے ۔ ایک مخصوص لمحے میں شعور منتخب بھی ہوسکتا ہے ۔ ضمیر ایک اعصابی جدوجہد کا نام ہے ، اسی اعصابی نقطہ نظر ایک اشارہ دیتا ہے کہ ضمیر اور شعور کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ شعور ایک نقش ہے ایک زمہ داری ہے۔ ضمیر ایک مکمل احساس کا نام ہے ۔ اب شعور دو قسم کے ہیں اور اس کا ہمیں مکمل خیال رکھنا بہی ضروری ہے دھیان دینا بہی ضروری ۔ بنیادی شعور کا کا تعلق احساسات ، خیالات ، خوابوں ، اور خواشات سے لازم ہے ۔ یہ سب آپ کو چاروں اینگل سے الگ تلگ رکھے گا آپ کی انفرادیت تشکیل دیگا بلکہ سہولت مہیا کرے گا ۔
عکاس شعور اسے کہتے ہیں کسی دماغ کا مشاہدہ کرنا اور جاننا کہ آپ کیا تھے اور کیا ہیں کیا جانتے کیا جاننے کی کوشش کرتے ہیں آپ اندرونی وجود ہے کیا ۔ اگر آپ ضمیر اور شعور کا نتیجہ دیکھنا یا اخذ کرنا چاہتے ییں تو وہ ہے بہت ہی پیچیدہ مطلب بہت ہی دلچسب ، شعور بنیادی طور پر وہ ہے جو ہمیں انسان منتخب کرتا ہے ۔ آج کا دور ذھانت کے حساب سے باشعور اور ذھانت سے بھر پور لوگوں کا مجمع ہے اور یہ اسکور بڑھتے ہی جارہے ایک اوسط درجہ پیمانے میں لائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ 2021 سے سوسال پہلے کے شخص میں جینیس یعنی اعلیٰ ذھانت رکھنے والا نہیں پائے جاتے تھے شعور سے عاری تھے ہماری اس ذھانت کی اور صلاحیت میں اضافہ خوش آئیند ہے مگر یہ صلاحیت مانند پڑ رہی ہے ، اس کی واضح مثال آپ آنکھیں کھول دیکھیں گے تو واضح نظر آئیگا یعنی ہم شعور سے دور نکل رہے ہیں ۔
کیا ذھانت و شعور بہی انتہا کو پہنچ رہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو آئیندہ دنوں یعنی مستقبل میں انسان کے لئے عروج حاصل کرنا پھر زوال پزیر ہونا یقینی ہے ۔ دعا ہے کہ ﷲ کریم ہمیں شعور سے عاری نہ کرے ضمیر کی ہمیشہ فروانی رکھے شعور سے مالا مال کرے ۔ اللھم امین محتاج دعا مروہ صدیقی
0 Comments