Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

‏عنوان ۔ محبت تحریر ۔ ڈاکٹر حمیرا عرف ہما

 

 

محبت
ایک ایسا جذبہ جوانسانی جبلت کے ساتھ تخلیق آدمیت سے جڑا ہوا۔ علماء جب تخلیق آدم کو بیان کرتے تو اسکی بنیادی وجہ محبت ہی کو قرار دیتے۔ فرشتوں کے حمد و ثنا ان کی اللہ جل شانہ سے محبت کی بدولت تھی اور حضرت آدم کی پیدائش کے بعد احترام آدمیت کا درجہ ان فرشتوں کے سامنے رکھا گیا، سوال ہوا کہ اس خاک کے پتلے میں ایسا کیا ہے کہ ہم اسے اتنا بڑا رتبہ دیں، اس کو بھی محبت کے درجہ پر فائز کردیں، جواب ہر ہم غور کر لیتے تو وہی کافی ہوتا محبت الٰہیہ کی مکمل سپردگی کے لئے۔


 جواب تھا جو میں جانتا وہ تم نہیں جانتے، اور کامل علم باواآدم کے سینے میں اتارا گیا، کہ جس سے محبت کی جاتی اسے مکمل بنایا جاتا، بے عیب، سب سے برتر، تو ہر جگہ کہا گیاعقل والوں کے لئے نشانیاں ییں، اگر تم سمجھ سکو۔ اس کا مطلب بہت واضح اور سیدھا کہ تکمیل آدم علیہ السلام دراصل کمال محبت تھی۔
 پھر غلطی اور اسکی معافی، کیا اس میں عقل سمجھ نہیں پارہی کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا گیا کہ کسی نقصان سے روکنے کا طریقہ ہے پہلے ہی بتا کر منع کرو، اور اگر غلطی سے منع کرنے کے باوجود وہی کام کر بیٹھو تو معافی مانگنے سے مت کتراؤ، اور محب و محبوب کے اس قصے میں یہ سمجھا دیا گیا کہ کوئی کتنا بھی اہم ہو، غلطی کرو تو سزا لازم دی جائے،


 اور سزا کے عمل کو وجہ نفرت و تضحیک نا جانا جائے، بلکہ سر تسلیم خم کردیا جائے۔ جن سے محبت کی جائے ان سے ہر دم آگاہ رہا جائے، غیر محسوس انداز میں اس کے لئے آنے والی مشکلات کو احسان جتلانے بنا صاف کر دیا جائے۔۔لیکن اس سب کے آخر میں رشتہ مضبوط ہی ہونا چاہئے نہیں تو فرعون و نمرود کی مانند معتوب ٹھہرے۔ یہ تمام اسی طرح انسانی زندگی پر آج بھی لاگو ہے۔

وہ، اپنے والدین کی بہت لاڈلی تھی۔ بہت بڑے گاؤں میں وہ سب بہن بھایی بہت خوش کن زندگی گزار رہے تھے۔ چاچا (اس کے والد) نے پیسے کا کر سب زمینوں کا حساب اسے دینا، اور گھر کے تمام فیصلوں میں اس کی رائے کو فوقیت دی جانی۔ دور اچھا تھا سب اپنے اپنے دائرہ میں مطمئن رہتے اسی لئے کسی قسم کا حسد نہیں ہوتا، پھروقت کا پہیہ پلٹا اور ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے، بالکل آخر تک اس کے باپ نے آبائی گاؤں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

ایک رات اپنے دوست سے مل کر واپس آثے باپ کی گردن جھکی تھی اور اس نے کوچ کا مژدہ سنایا، اور یوں سب چھوڑ چھاڑ وہ اپنے باپ کے ہمراہ ڈبڈباتی آنکھوں سے پاک سر زمین آ بسی۔ ادھر اس کی شادی کر دی گئی، لیکن عین عالم شباب میں پہلے دو سال کی بیٹی اور اس کے دو ماہ کے اندر شوہردار فانی سے کوچ کرگئے۔ دو ماہ بعد بیٹی کی پیدائش کے بعد اس نے خود کو سنبھالا٫ اور گاؤں میں کپڑے سلائی کرنے لگی ساتھ بھینس کے دودھ اور گاؤں کی بچیوں کو قرآن پڑھانے کی وجہ سے بوا جی کے رتبہ پر فائز ہوئی اور سب کی طرف سے عزت ملنے لگی۔ وقت کا پہیہ بہنے لگا لیکن بوا جی کے منہ سے شکوہ کسی نے نا سنا۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں اپنی بیٹی کو مڈل تک تعلیم دلوائی اور بہت شان سے بیاہ دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ذہنی پسماندگی میں چلی گئی۔



تنہائی ختم کرنے کو بواجی کو بیٹوں جیسا داماد اپنے پاس لے آیا، بیٹی کے گھر میں کسمپرسی کے حالات دیکھتی اس کے بچوں کو ہندوستان کے قصے سناتی تو اسکی زبان پر صرف شکر کا کلمہ رہتا۔ کٹھن سے کٹھن حالات میں اس نے محبت کرنا نہیں چھوڑا۔ ہر کوئی اس کی محبت کا گرویدہ ہوا اور آہستہ آہستہ وہ سب کی نانی بن گئی۔ محبت میں گندھی، کسی کی چغلی غیبت نہیں لیکن سب کو اللہ سے محبت کی رسی سے جوڑنے والی۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ اتنا کچھ سہہ لیا تو رب سے کبھی شکوہ بھی کیا کر، سب کچھ چھن گیا، نا دولت گھر رشتے کچھ بھی تو نہیں باقی رہاتواس کا جواب بہت خوبصورت تھا


“رب نے  سانس بھر دی اک بےجان جسم میں، پھر اس کے عطاؤں کی بارش کی تو غرور کیسا؟ وہ تو سب اللہ کا تھا شکر کیا کہ اس نے دیا، اور جب واپسی ہونی شروع ہوئی تو شکوہ کیسا، جس نے  دیا اس کی امانت تھی، واپس لے لی تو کیا اللہ سے اب لڑائی مول لیں؟"
مزید کہنے لگیں "جس سے محبت کرتے پھر وہ کچھ دے یا واپس لے پھر شکوہ نہیں کرتے"
محبت کرنا سکھا گئی وہ کہ محبت میں شرائط نہیں رکھی جاتیں، مکمل سپردگی، کوئی گلہ شکوہ کئے بنا۔ محبت میں مانا جاتا، جو مان جاتا وہ آدم بنتا اور جو نا مانے شیطان ملعون۔


اب نانی سے اگلاسوال تھا کہ محبت اگر عطا ہے تو رب سب چھین کیسے لیتا؟ وہ کیسے کسی انسان کو محرومیوں کے حوالہ کر کے کیسے محبت کا اظہار کرتا؟ اور جواب رونگٹے کھڑے کر دینے والا۔
“محبت سے آدم کو پیدا کیا گیا تھا، جب وہ بہکاوے میں آیا اور ممنوعہ شجر کھا بیٹھا تو ان کے ستر ظاہر ہوئے اس کے بعد سے آگے تو محبت کا امتحان شروع ہوا، اب کی بار انسان کو یہ محبت ثابت کرنی یے، اللہ کی محبت کی انتہا تھی کہ سارا علم اور روح جسم انسانی میں پھونک دی،اور آدم کی محبت کا کمال یہ ہو گا کہ اس کا ہر ایک عمل خدائے لم یزل کی محبت کا مظہر ہو۔ عطا ہو یا جفا محبت کا دریا بہتا رہے۔ اور جو کوئی اس محبت کے اظہار میں ناکام ہونے لگے تو پہچان بہت آسان۔۔۔ اس کا ستر ظاہر ہونے لگے گا.


ہر گھر میں اتنی عالم فاضل نانی دادی موجود رہی جو پی ایچ ڈی یاعالمہ نہیں تھی لیکن زندگی گزارنے کے لئے بنیادی تعلیمات پر عبور تھا، بس وہ خاموش ہونے لگ گئی تو انسانوں کو کھرے اور کھوٹے کی پہچان ختم ہونے لگ گئی۔ ضرورت ہے کہ اللہ رب العزت سے محبت سکھانے والوں کی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ آگے لایا جائے اگر فی زمانہ مسلمانوں کے زوال کو واپس عروج میں بدلنا ہے تو۔


تاریخ پر عبور حاصل کریں تاکہ آپکی آنے والی نسل کو معلوم ہو کہ آسمانوں تک کی حکمرانی کے لئے اللہ کی محبت کے آگے سرنڈر کرنا ہی کامیابی کا ضامن ہے۔



تحریر ۔ ڈاکٹر حمیرا عرف ہما
محبت

Post a Comment

1 Comments

  1. اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دل اپنی اوراپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بھر دے اور ہمیں‌ہمیشہ کتاب و سنت پر گامزن رکھے۔آمین
    ایک ماں جتنی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اللہ تعالی اس سے بہت زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔

    ReplyDelete