Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

‏"بے لگام پاکستانی آبادی اور ہمارا مستقبل"

 ‏"بے لگام پاکستانی آبادی اور ہمارا مستقبل"

آبادی کنٹرول
محمد محسن


انسانی معاشرے کا اک بنیادی جزو ہے کہ یہ ہمیشہ حرکت پذیری کے پراسس میں سے گزرتا رہتا ہے۔ حرکت پذیری کسی بھی چیز کے زندہ ہونے کی اک نشانی ہوتی ہے اور جب اس سے حرکت ختم ہو جاتی ہے تو اسکو مردہ تصور کیا جاتا ہے۔ انسانی معاشرہ اسی طرح اک مسلسل حرکت پذیری میں سے گزرتا رہتا ہے۔ یہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب سے لیکر یہ مختلف ادوار میں سے گزرتا ہوا آج اس جدید دور میں آ پہنچا ہے۔ قدیم معاشرے میں جب سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی نام و نشان نہ تھا لوگوں کے سروائیول کا واحد ذریعہ شکار وغیرہ کرنا اور کھانے پینے کی  اشیاء اکٹھی کرنا تھا۔ اس hunting and gathering معاشرہ میں خوراک اور علاج و معالجہ کا کوئی خاص سسٹم موجود نہیں تھا۔

 اس دور میں جتنے زیادہ بچے ہوتے تھے اتنا ہی اس خاندان کا نام بلند ہوتا تھا کیونکہ سارے کام کاج انہیں انسانوں نے کرنا ھوتے تھے اور ٹیکنالوجی نام کی کوئی  چیز نہیں تھی۔ علاج و معالجہ کی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بچوں اور عام انسانوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ چھوٹی سی اور معمولی بیماری بھی اکثر جان لیوا ثابت ھوتی تھی۔ خیر انسانی معاشرے کا یہ نظام زرعی دور تک قائم و دائم رہا اور انسانی آبادی مسلسل بڑھتی رہی۔ اس کے بعد جب معاشرہ سائنسی دور میں داخل ہونا شروع ہوا تو معاشرے میں تبدیلیاں رونما ہونے لگی۔ پانی کی مدد سے سٹیم اور اس سٹیم کی مدد سے مشینری اور پلانٹس کو چلانے میں مدد لی گئی۔ جو سارے کام انسان کے مرہون منت تھے وہ اب آہستہ آہستہ اس مشینری پر منتقل ہونے لگے۔ علاج و معالجہ کی سہولیات میں بہتری آنا شروع ہوئی اور شرح اموات کو کنٹرول کیا جانے لگا۔ لوگ تعلیم حاصل کرنے لگے جس کی بدولت ان میں شعور آنے لگا خاص طور پر تعلیم نسواں کی وجہ سے آبادی کنٹرول ہونے لگی اور یہ تعلیم یافتہ معاشرے جدید سائنسی تحقیقات کی طرف راغب ہوئے اور نت نئی ایجادات رونما ہونے لگیں۔ 

ان ضروریات کو مستقبل کے نقطہء نظر سے جتنی جلدی جس معاشرہ نے بھانپ لیا اتنی جلدی وہ جدیدیت کی طرف مائل ہو کر سائنسی ترقی کرنے لگا۔ سوائے ان معاشروں کے جو اسی پرانی اور دقیانوسی تصورات میں ڈوبے رہے اور دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتے کرتے آبادی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے گئے یہاں تک کہ دنیا کی آبادی تقریباً سات، آٹھ ارب تک پہنچا دی۔ اس آبادی کی دوڑ میں ہمارے جیسے ممالک سر فہرست رہے اور الحمد للّٰہ اب بھی ہیں اور مجال ہے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی اس سوچ کا انحراف کیا ہو۔ جب بھی آپ آبادی کو کنٹرول کرنے یا فیملی پلاننگ کی بات کریں تو اک خاص طبقہ آپ کے درپے ہو جائے گا اور آپ کو طرح طرح کی جسٹی فیکیشنز دینے لگے گا لیکن آپکی مستقبل کی سوچ کی طرف مائل نہیں ھو گا۔ بعض فلسفی تو آپ کو اک خاص قسم کی سوچ کے ساتھ لیبل کریں گے کہ یہ تو آپ ہمیں فلاں معاشرے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ جتنی جلدی ہم اپنی اس سوچ کو تبدیل کریں گے اتنی جلدی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ 

پاکستان میں اس خاص سوچ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کے جھروکوں میں سے گزرنا پڑے گا۔ 1947 میں آزادی کے وقت پاکستان (جس میں آج کا بنگلہ دیش بھی شامل تھا) کی کل آبادی تقریباً 75 ملین (ساڑھے سات کروڑ) تھی۔ اس 1951 کی مردم شماری کے مطابق تب کے مشرقی پاکستان کی آبادی تقریباً 42 ملین اور مغربی پاکستان کی آبادی تقریباً 33 ملین تھی۔ یعنی تب کے مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے ایک کروڑ زیادہ تھی۔ تب مغربی پاکستان کے لوگ جہاں بنگالیوں کو اور بھی بہت سی وجوہات سے دھتکارتے تھے ان میں اک وجہ ان کی بچے پیدا کرنے کی سپیڈ بھی سمجھی جاتی تھی۔ بعد میں ایوب خان کے دور میں جہاں دوسری معاشی اور معاشرتی ترقی کی طرف توجہ دی گئی وہیں فیملی پلاننگ پر بھی پالیسیاں بنائی گئیں کیونکہ ایوب خان کی سوچ کے مطابق اگر ہم نے آنے والے دور میں ترقی یافتہ ممالک کا ترقی میں مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دینی ہو گی۔ وہ بنگالی جن کو زیادہ تر پاکستانی سیکنڈ کلاس پاکستانی شہری گردانتے تھے انہوں نے تو اس سوچ کو پلے باندھ لیا اور آبافی کنٹرول کرنا شروع کر دی۔ لیکن دوسری جانب مغربی پاکستان جو کہ تب آبادی کے لحاظ سے چھوٹا اور رقبے کے لحاظ سے بڑا تھا اس نے اس فیملی پلاننگ کی طرف کان نہ دھرے جسکی وجہ سے ہماری آبادی میں دن بدن اضافہ ھوتا گیا اور جو آبادی 1951 میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ تھی وہ ترقی کرتی کرتی آج ماشاءاللہ 22 کروڑ تک جا پہنچی۔ بنگلہ دیش میں بھی پہلے یہ آبادی بڑھتی رہی لیکن بعد میں انہوں نے اسکو کنٹرول کیا انکی آبادی جو 1951 میں ہم سے اک ڈیڑھ کروڑ زیادہ تھی آج چار پانچ کروڑ ہم سے کم ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد جن ممالک نے اس فیملی پلاننگ پر سنجیدگی سے پالیسیاں بنائیں اور ان پر عمل کروایا وہ ممالک آج دنیا میں صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ 

چین جیسے ممالک جنہوں نے قدرے بعد اس پلاننگ کی طرف توجہ کی لیکن کی تو سہی۔ 2015 سے پہلے چین میں ون چائلڈ پالیسی متعارف کروائی گئی کہ اک فیملی صرف اک بچہ پیدا کرے گی لیکن بعد میں معاشرتی مسائل کی وجہ سے اسکو ٹو چائلڈ پالیسی میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس سے یہ تو ممکن نہیں کہ چین جیسے ممالک میں جلدی سے آبادی کم ہو جائے لیکن اس کی وجہ سے چین سے اپنی آبادی کو مزید بڑھنے سے روک لیا۔ اب اگر اک خاندان صرف دو بچے پیدا کرتا ہے تو اسکا مطلب ہے کی آبادی سٹیبل ہو گی کم نہیں۔ یعنی کہ اک میاں بیوی اگر دو بچے پیدا کرتے ہیں تو انہوں نے آنے والے دنوں میں اپنی ریپلیس میں اپنے یہ دو بچے دے دئیے لیکن ہمارے جیسے ملک میں دائیں بائیں نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ ایوریج اک فیملی کے کتنے بچے ہیں۔ یہاں ہمارے مزہبی علماء یہ بات کہتے ہیں کہ بھئی جتنے مرضی بچے پیدا کر لو رزق تو اللہ نے ہی دینا ہے۔ بھائی یہ بات بجا ہے کہ رزق اللہ کے ھاتھ میں ھے لیکن کچھ اختیارات اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی دئیے ہیں جن کو انسان نے خود استعمال کرنا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ اولاد کو انکے سارے حقوق دو تو اگر آپ دھڑا دھڑ بچے پیدا کیے جائیں گے اور انکو بچپن سے ہی چائلڈ لیبر کے لیے مارکیٹ میں پھینکتے جائیں گے تو تب آپ کو اسلامی تعلیمات کا پتہ نہیں چلتا؟ اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ اپنے بچوں کو اچھا کھلاو، اچھا پلاؤ، اچھا پہناؤ، انکی اچھی تربیت کرو اور ان کو انکے زمانے کی تعلیم دو۔

 اگر آج آپ ان کے یہ سب حقوق پورے کرو گے تو ہی کل کو یہ بڑھاپے میں آپکا سہارہ بنیں گے اور اپنے والدین کے حقوق پورے کریں گے۔ لیکن اگر آپ نے ان کو پیدا کر کے بچپن سے ہی مارکیٹ میں پھینک دیا تو کل کو آپ کو انکا پتہ نہیں ہو گا کہ یہ کہاں ہیں اور انکو آپ کاایک طرف تو پاکستان جیسے ممالک کا یہ حال ہے کہ یہ فیملی پلاننگ کی طرف کان نہیں دھر رہے۔ دوسری جانب جنہوں نے اس پر عمل کیا وہ آج دن دگنی رات چوگنی ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں اسرائیل ہی کی مثال لے لیں۔ اسرائیل میں اس وقت یہودیوں کی آبادی تقریباً 6-7 ملین ہے یعنی کہ ٹوٹل یہاں اسرائیل میں ایک کروڑ بھی یہودی نہیں ہیں لیکن انہی یہودیوں نے پورے مڈل ایسٹ کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کوئی بھی مسلم ملک ان کے آگے آنکھ نہیں اٹھا سکتا۔ 

یو۔اے۔ای، سعودی عرب، مصر جیسے ممالک ان کے آگے بے بس ہیں۔ وہ سر عام فلسطین کی سرزمینوں پر قبضے کیے جا رہا ہے لیکن کوئی اسکو روکنے والا نہیں۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے اپنی کم آبادی کے باوجود ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں ترقی کی۔ انہوں اپنے شہریوں کو وہ تمام سہولیات دیں جو عام لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے زراعت کے شعبے میں ترقی کی اور آج ڈرپ ایریگیشن جیسی جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔

لیکن دوسری جانب ہم اپنے ملک میں دیکھ لیں کیا ہمارے عوام کو روزمرہ کی تمام سہولیات مل رہی ہیں؟ کیا یہاں ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے؟ کیا ہر بچے کی غذائی ضروریات پوری ہو رہی ہیں؟ کیا صحت کی سہولیات ہمارے لیے کافی ہیں؟ کیا ہر بچے اور ہر خاندان کو روٹی، کپڑا اور مکان جیسی سہولیات میسر ہیں؟ کیا ہم تعلیمی میدان میں ترقی کر رہے ہیں؟ کیا ہم ٹیکنالوجی میں معرکے سر کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی ہے؟ کیا ہمارے پاس ہماری آبادی کے لحاظ سے ریزرو پانی کافی ہے؟ کیا سب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

 تو معاف کیجیے گا ان میں سے شاید کوئی اک ضرورت پر ہم پورا اترتے ہوں؟ یہاں تو 2-3 کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہاں تو گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہونے کی وجہ سے خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ تو ایسے ماحول میں ہم نے ترقی کہاں کرنی ہے۔ ہمیں آج ہی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ اگر ہم آج سوچیں گے تو آنے والی نسل تک ہم سنبھل جائیں گے۔ ہم اس آبادی کے خاموش بم کو پھٹنے سے پہلے روک سکتے ہیں نہیں تو یہ بے لگا گھوڑا پتہ نہیں ہمیں کہاں لے جائے۔


محمد محسن

Post a Comment

0 Comments