کیسا عجیب معاملہ ہے کہ دو مکمل اجنبی خاتون اور مرد محض ایک جملے کے بعد ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں اور ان کا تعلق عزت احترام اور محبت کا تعلق شمار کیا جاتا ہےایک انتہائی مختصر جملہ یہ عورت اس حق مہر کے ساتھ آپ کے عقد میں آپ کو قبول ہے۔
اس جملے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں ان کا تعلق جائز ہوتا ہے وہ کہیں آتے جاتے ہیں تو ایک خاص احترام ان کے لئے سب کی آنکھوں میں اتر آتا ہے ان کی اولاد ہوتی ہے تو اس اولاد کے لئے سب کی نظروں میں محبت ہوتی ہے اور اس کو جائز اولاد تصور کیا جاتا ہے شوہر مرجاتا ہے تو اس کی جائیداد مال و دولت میں اس خاتون کا باقاعدہ حصہ ہوتا ہے مرد اس عورت کے اخراجات کا پابند ہوتا ہے کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہوتی ہےجناب صرف اتنا ہی نہیں ابھی آگے چلئے بالفرض دونوں کے مابین اختلاف ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ مرد نے اپنی جیکٹ کندھے پر اٹھائی دروازے کو ٹھوکر ماری اور چل دیا اس کو عورت کو اپنی زندگی سے نکالنے کے لئے قواعد کی مکمل پابندی کرنی پڑتی ہے دونوں اطراف کے بزرگ خاندان اور بڑے آپس میں بیٹھیں گے حق اور ناحق کا فیصلہ ہوگا ظالم اور مظلوم کا فیصلہ ہوگا آئندہ زندگی کس طرح گزارنی ہے بچوں کی ذمہ داری کس کی ہوگی نان و نفقہ کیسے طے کیا جائے گا یہ سب امور زیر بحث آئیں گے ۔۔۔
دیکھا ایک جملہ کا کمال ....
اور چلتے چلتے اس جملہ کا مزید اختصار آپ کو بتاتا چلوں ہمارے یہاں برصغیر پاک و ہند مقامی رسوم و رواج مذہب کے احکامات پر اس قدر غالب آگئے ہیں کہ ہمیں اس دھندلکے میں اصل دین کی خبر ہی نہیں ہوتی ہمارے ہاں نکاح میں پہلے مولوی آ کے کلمہ پڑھا جاتا ہے۔یہ محض ایک اضافی بوجھ ہے نکاح کی الزمی شرط دو گواہوں کا ہونا ، لڑکی کی رضا مندی ، ولی کا ہونا اور حق مہر کے ساتھ محض ایجاب و قبول ہے ۔۔حتی کہ عربی میں خطبہ بھی نہ پڑھاجائے صرف ایجاب و قبول ان شرائط کے ساتھ کافی ہے اس اختصار کو یہاں بتانے کا اصل مقصود یہ ہے کہ کس طرح محض چار لفظوں کا ایک جملہ اس رشتے کو مقدس ، مطہر ، پاک ، پوتر اور عزت والا بنا دیتا ہے ۔۔۔
اب ذرا دروازے کے دوسری طرف آئیے
بنا نکاح کے تعلق میں مرد عورت کو صرف استعمال کرتا ہے
جنسی لزت کے سوا آپس میں کوئی اور ذہنی رشتہ نہیں ہوتا بالفرض محبت پیدا ہو بھی جائے تو اس کی بنیاد کمزور ہی ہوتی ہے کسی معمولی اختالف کی صورت میں بھی مرد کے لیے اس تعلق کو توڑنا کوئی مشکل نہیں ہوتا اولاد پیدا ہونے کی صورت میں بھی مرد اس ذمہ داری کو سنبھالنے کا پابند نہیں ہوتا عورت کے اخراجات تو بہت بڑی بات ہے وہ تو عورت کے بہتے آنسو بھی سنبھالنے کا پابند نہیں ہوتا نکاح میں جب عورت حاملہ ہوتی ہے تب تو اس کے ناز اٹھائے جاتے ہیں ، مہمان کی آمد کے انتظار میں گھر میں بہار آجاتی ہے اور اس تعلق میں اگر عورت حاملہ ہو جائے پہال رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ عذاب کیوں کر
اترآیا. اس کے عالوہ اگر خاندان والوں اور لوگوں کو پتا چل جائے ایسے معاملے کا تو عزت اپنی بھی خراب ہوتی ہے ساتھ میں
والدین کی بھی عزت خراب ہوتی ہے.دوست بھی برا بھال سمجھتے ہیں ایسے معاملہ کے بعد.
0 Comments