Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

این آر او کیا ہے؟ این آر او کس نے دیا؟ این آر او سے کس نے کیا فائدہ حاصل کیا؟

 این آر او کیا ہے...

این آر او سے کس نے کتنا فائدہ لیا؟

 این آر او ہے کیا چیزہے؟

این آر او سے ملک کو کیا نقصان ہوا؟

اپوزیشن کیوں مانگ رہی ہے؟

 اور وزیراعظم انھیں دینے پر ہرگز آمادہ کیوں نہیں ؟

آئیے یہ سب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریر۔زہرہ آغا
IG_zahra@

این آر او کیا ہے؟


سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا جسے این آر او کہا جاتا ہے، 7 دفعات پر مشتمل اس آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا بتایا گیا تھا۔

 اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صدر مملکت نے قانون میں ترمیم کرکے ان تمام مقدمات کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جو یکم جنوری 1986 سے لے کر 12 اکتوبر 1999 کے درمیان ’سیاسی بنیادوں‘ پر درج کیے گئے تھے۔جب کہ اس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بھی ختم کیے گئے تھے۔این آر او کو اس کے اجرا کے تقریباً دو سال بعد 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے اس مفاہمتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا اور اس قانون کے تحت ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں کون کون سے سے سیاستدان شامل تھے؟


 دو برس بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس آرڈیننس کو مفاد عامہ اور آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد یہ مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے۔بینظیر بھٹو اور ان کی جماعت کے دیگر سینکڑوں رہنماوں اور کارکنوں، جن میں ان کے شوہر آصف علی زرداری بھی شامل تھے، کے خلاف 1986 اور 1999 کے درمیان ڈھیروں مقدمات درج کیے گئے تھے۔این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں جب کہ اسی قانون کے تحت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی بھی ممکن ہوسکی تھی۔ان مقدمات کی موجودگی میں بینظیر بھٹو اور ان کے ساتھی وطن واپس نہیں آ سکتے تھے جبکہ جنرل پرویز مشرف انہیں ملکی سیاست میں واپس لانا چاہتے تھے تاکہ ملک اور اپنے آپ کو بڑے سیاسی بحران اور بین الاقوامی دباو سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں اور کارکنوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمات خارج کر دیے گئے۔جن دیگر اہم افراد کے خلاف اس این آر او کے تحت مقدمات ختم کیے گئے ان میں بینظیر بھٹو کے سسر حاکم علی زرداری، ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین، سابق گورنر عشرت العباد، فارق ستار، مولانا فضل الرحمٰن، رحمٰن ملک، حسین حقانی، سلمان فاروقی وغیرہ شامل تھے۔ سپریم کورٹ سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد یہ مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے لیکن اس وقت بینظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں تھیں اور آصف زرداری صدر مملکت ہونے کی وجہ سے ان مقدمات سے استثناٰ حاصل ہو چکا تھا۔

این آر او کہ حلاف درخواست گزار کون تھا اور اس کا موقف کیا تھا؟

درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی نے موقف اختیار کیا کہ این آر او کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان ہوا، این آر او قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جانی چاہیئے درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا اور این آر او کا اعلان کیا.سپریم کورٹ میں قومی مفاہمتی آرڈیننس سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے 24 اپریل کو سابق صدر آصف زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کیے تھے۔درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ لوٹے گئے پیسوں کو وصول کیا جائے۔آصف زرداری نے اپنے جواب ان پر خزانہ لوٹنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا، فوج داری مقدمات میں عدالتوں سے رہائی ملی، ان پر مخالفین نے سیاسی مقدمات بنائے، درخواست انہیں اور بڑی سیاسی جماعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ عدالت نے گزشتہ سال 2018 اپریل میں مقدمے پر سماعت کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف اور آصف زرداری کونوٹس جاری کیے تھے جب کہ دونوں شخصیات کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔عدالت نے درخواست گزار پر ابتدائی سماعت کے بعد 24 اپریل کو سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کیے تھے جب کہ آصف زرداری اور دیگر نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب بھی جمع کرادیا ہے۔صدر پرویز مشرف نے بھی این آر او کیس میں جواب جمع کرادیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ این آر او سیاسی انتقام کے خاتمے اور انتخابی عمل شفاف بنانے کےلئے جاری کیا، این آر او کے اجراءمیں کوئی بدنیتی اور مفاد شامل نہیں تھا جواب میں مزید کہا گیا ہےکہ این آر او آرڈیننس اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کرجاری کیا، اس وقت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق تھے لہٰذا این آر او سے متعلق درخواست خارج کی جائے۔عدالت نے سابق صدور پرویز مشرف، آصف زرداری اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف این آر او کیس ختم کرتے ہوئے فیروز شاہ گیلانی کی درخواست نمٹا دی۔

وزیر اعظم عمران خان سے کون این آر او مانگ رہا ہے اور وزیراعظم کیوں این آر او نہیں دے رہے؟

اس وقت اپوزیشن ہر ممکن کوشش میں ہے کسی طرخ انہیں بھی این آر او دیا جائے اور ان کی تمام تر کرپشن اور چوریاں ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے معاف کر دی جائیں اپوزیشن نے ہر ممکن کوشش کر لی کہ کسی بھی طرخ عمران خان کو منایا جائے مگر ابھی تک کامیابی نہیں ملی۔وزیر اعظم عمران خان کا یہ موقف ہے پہلے ایک بار این آر او دینے سے ملک کو بہت نقصان ہوا ہے اب وہ یہ غلطی نہیں کریں گے۔

تحریر زہرہ آغا
@IG_zahra

Post a Comment

1 Comments