Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

سلجوق سلطنت اور اس کا قیام?

 سلجوق سلطنت اور اس کا قیام

سلجوق سلطنت اور اس کا قیام


 پانچویں صدی ہجری بمطابق گیارہویں صدی عیسوی میں سلجوق سردار طغرل بیگ نے اس عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ سلطنت خراسان مارواءالنہر بلاد شام ایران عراق  اور ایشیائے کوچک کے علاقوں پر مشتمل تھی اس سلطنت کا پہلا دارالحکومت ایران کا قدیم شہر رے تھا بعد ازاں عراق کا شہر بغداد میں منتقل کر دیا گیا اسی دوران خراسان مارواءالنہر بلاد شام اور ایشیائے کوچک میں چھوٹی چھوٹی سلجوق سلطنتیں وجود میں آئی جو ایران اور عراق میں سلجوقی سلطان کے تابع تھی ۔

سلجوقیوں نے بغداد کی عباسی خلافت اور اسکے مذہب اہل  السنت والجماعت کی بھرپور مدد کی۔ یہ سلطنت ایک طرف ایران وعراق میں شیعہ بوہیمی اور دوسری طرف مصروشام میں عبیدی اثرونفوذ کے درمیان گھری زوال کے قریب پہنچ چکی تھی۔ سلجوقی سردار طغرل بیگ نے 447ھ میں بغداد کے اندر  بوہیمی سلطنت کا خاتمہ کر دیا اور تمام شورشوں پر قابو پا لیا اور رافضیوں کے شیخ ابو عبداللہ الجلاب کو رفض میں غلو کی وجہ سے قتل کر دیا ۔

ارطغرل بیگ جب ایک فاتح کی حیثیت سے عباسی خلافت کے دارالحکومت میں داخل ہوا تو خلیفہ قائم بامر اللہ نے اسکا شاندار استقبال کیا اسکو بےشمار قیمتی تحائف دئیے اسکے نام کا سکہ جاری کیا اسکو بےشمار القابات سے نوازا جا میں سلطان رکن الدین طغرل بیگ بھی شامل تھا اسکے نام کا خطبہ مسجدوں میں  پڑھنے کا حکم دیا۔ خلیفہ کی اس قدر عزت افزائی کی وجہ سے  سلجوقیوں کو پوری دنیا میں  بےشمار قدر ومنزلت حاصل ہوئی اب وہ بغداد میں بوہیمیوں کی جگہ پر سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ خلیفہ انکے ہر مشورے کو بطیب خاطر قبول کرتا تھا اور انکی عزت کرتا تھا 8 رمضان المبارک 454 ھ بمطابق 1062 ء کو 70 سال کی عمر میں طغرل بیگ کا انتقال ہو گیا۔ اپنی وفات سے پہلے طغرل بیگ نے خراسان ، ایران اور عراق کے شمال مشرقی علاقوں میں اپنے ہاتھ سے سلجوقی اقتدار اور غلبہ کا کام مکمل کر چکے تھے۔

سلطان الپ ارسلان:

طغرل بیگ کی وفات کے بعد اسکے بھتیجے الپ ارسلان سلطان کے مسند پر فائز ہوا وہ بھی طغرل بیگ کی طرح ایک نہایت مدبر، تجربہ کار لیڈر اور جرات مند شخصیت کا مالک ایک مخلص قائد تھا اس نے ملکی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لئے ایک نہایت ہی دانشمندانہ پالیسی اختیار کی جو علاقے سلجوقی سلطنت کے زیر نگیں تھے پہلے انکے استحکام کو یقینی بنایا اسکے بعد بیرونی دنیا کی طرف پیش قدمی کی۔  سلطان الپ ارسلان ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ اور اپنی پڑوسی میسحی سلطنتوں میں اسلام کی اشاعت کے لیے بے قرار رہتا تھا اسکی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ ارمن اور روم کے علاقے اسلامی قلم رو میں شامل ہوں دراصل وہ ایک مخلص مجاہد تھا اور اسلامی جہاد کی روح ہی وہ واحد عامل ہے جسکی بدولت الپ ارسلان کو شاندار کامیابیاں ملی اور اسکی جہادی سرگرمیوں نے دینی رنگ اختیار کیا .

سلجوقی سلطنت کا یہ عظیم مجاہد ایک مخلص جہادی شخصیت اور میسحی علاقوں میں اسلام کی اشاعت کے لے بے حد حریض انسان کی شکل میں نمودار ہوا اور سلطنت بیزنطینیہ کے بہت سارے علاقوں پر اسلام کا علم لہرا دیا الپ ارسلان اپنی مملکت کی سرحدوں کو وسیع کرنے سے پہلے سات سال کے عرصہ تک اپنی مملکت کے دوردراز کے علاقوں کے حالات کا جائزہ لیتا رہا اور جب ان علاقوں میں امن وامان کی صورت حال سے مطمئن ہو گیا تو اپنے عظیم مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے پلاننگ شروع کر دی۔ ان کے سامنے ایک ہی ہدف تھا سلجوقی سلطنت کے پڑوس میں واقع مسیحی علاقوں کو فتح کرنا ، مصر میں فاطمی بدولت کے اقتدار کو ختم کرنا اور تمام اسلامی دنیا کو عباسی خلفاء اور سلجوقی اقتدار کے جھنڈے کے نیچے متحد کرنا۔ الپ ارسلان نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور اس لشکر کی قیادت کرتا ہوا ارمن اور جوجیا کی طرف روانہ ہوا۔ یہ علاقے بہت جلد انکے ہاتھوں فتح ہوئے۔ الپ ارسلان آگے بڑھا اور شام کے شمالی علاقے پر یورش حلب مرداسی حاکم تھا۔ اس سلطنت کی بنیاد 414ھ بمطابق 1023ء میں صالح بن مرداس نے رکھی تھی۔ یہ شیعہ سلطنت تھی۔ الپ ارسلان نے مرداسی سلطنت کا محاصرہ کیا اور اس سلطنت کے فرمانروا محمود بن صالح بن مرداس جو مجبور کیا کہ وہ مصر کی فاطمی خلیفہ کی بجائے عباسی خلیفہ کی حکومت کو تسلیم کرے اور لوگوں کو اس حکومت کی احکام کا پابند کیا اسکے بعد الپ ارسلان نے ایک ترکی نژاد قائد اتنسز بن اوق خوارزمی کو جنوبی شام پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا خوارزمی نے فاطمیوں سے رملہ اور بیت المقدس چھین لئے لیکن عسقلان پر قبضہ نہ کر سکا جسے مصری حدود میں داخلہ کے لئے ایک بہت بڑے دروازے کی حیثیت حاصل تھی اس طرح سلجوقی بیت المقدس کے اندر خلیفہ عباسی اور سلجوقی سلطان کے مرکز کے قریب ہو گئے۔

426ھ میں مکہ مکرمہ کے گورنر محمد بن ہاشم کا قاصد سلطان الپ ارسلان کے دربار پہنچا۔ قاصد نے اطلاع دی کہ شریف مکہ خلیفہ القائم پاشا اور سلطان الپ ارسلان کے نام کا خطبہ دے رہا ہے اور آئندہ سے وہ عبیدی سلطنت کی بجائے عباسی خلافت کے احکامات کی پابندی کرے گا۔ قاصد نے یہ بھی بتایا کہ مکہ شریف میں آئندہ حئی علی خیرالعمل کے الفاظ اور دوسرے شیعی الفاظ اذان میں نہیں دہرائے جائے گئے سلطان نے شریف مکہ کے قاصد کی بڑی عزت افزائی کی۔ تیس ہزار دینار گورنر مکہ کی خدمت میں ارسال کئے۔ اور کہلا بھیجا کہ اگر گورنر مدینہ ایسا کرے گا تو اسکی خدمت میں بیس ہزار دینار پیش کئے جائے گئے ۔الپ ارسلان کی ان فتوحات نے رومی شہنشاہ ڈومانوس ڈیوجیس کو آتش زیر پا کر دیااور اس نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی شہنشاہیت کا دفاع کرے گا۔ سو اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی پوری فوج سلجوقیوں کے خلاف جنگ میں جھونک دی۔ رومی اور سلجوقی فوجوں میں کئی خونریز معرکے ہوئے۔ "ملاذکرد" کا معرکہ ان سب میں زیادہ اہم ہے جو 463ھ بمطابق اگست 1070 ء کو برپا ہوا.

اس معرکے میں روم کا بادشاہ ڈومانوس پہاڑ کی مانند لشکروں کو لیکر روانہ ہوا۔ ان لشکروں میں روم، روس، برطانیہ، اور کئی دوسرے ملکوں کے سپاہی شریک تھے۔ ڈومانوس کی جنگی تیاریاں بھی خوب تھی اس لشکر میں 35 بطریق بھی شریک تھے۔ اور ہر بطریق کے ساتھ دو دو لاکھ گھوڑ سوار تھے۔ 35ہزار فرنگی اور 15 ہزار دوسرے جنگ جو اسکے علاؤہ تھے جو قسطنطنیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اسکے علاؤہ ایک لاکھ نقب لگانے والے، ایک لاکھ کھدائی کرنے والے، ایک ہزار روز جاری، چار سو بیل گاڑیوں جن پر فوجوں کی وردیاں، اسلحہ، گھوڑوں کی زینیں، منجنیقیں، قلعہ شکن آلات لدے ہوئے تھے۔ ان منجنیقیوں میں ایی منجنیق ایسی بھی تھی جس کو ایک ہزار دو سو آدمی چلاتے تھے ڈومانوس یہ سب لاؤ لشکر لیکر اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کا مقصد لیکر آگے بڑھا تھا۔ اسکو اپنی طاقت پر اتنا گھمنڈ تھا کہ فتح سے پہلے ہی اسلامی علاقے اس نے بطریقوں کو جاگیر میں دینے کا اعلان کیا حتیٰ کہ بغداد بھی ایک بطریق کے نام کر دیا۔ انکا پروگرام یہ تھا کہ جب عراق اور خراسان کے علاقے فتح ہو جائیں گئے تو وہ یکبارگی حملہ کر کے شام کے علاقے مسلمانوں سے واپس لے لیں گئے۔ وہ یہ سوچ رہے تھے اور تقدیر ہنس رہی تھی ۔ سلطان الپ ارسلان اور رومی فوجوں کا آمنا سامنا الزھوہ کے مقام پر بدھ کو ہوا۔ ذیقعد کے اس مہینے کے ابھی پانچ دن باقی تھے۔ رومی فوج کی کثرت دیکھ کر الپ ارسلان کچھ پریشان ہوا۔ لیکن فقیہیہ ابو نصر محمد بن عبدالماک بخاری نے انکو حوصلہ دیا اور کہا: سلطان محترم! جمعہ شریف کے روز جب خطباء جمعہ کے خطبے پڑھ رہے ہوں اور مجاہدین کے لئے دعائیں مانگ رہے ہوں عین اس وقت دشمن پر حملہ کر دیں۔ اللہ کریم مسلمانوں کی دعاؤں کے طفیل سلطان کو فتح عطا فرمائے گا۔

جب وہ وقت آیا اور دونوں لشکر میدان میں اترے تو الپ ارسلان گھوڑے سے اترا۔ زمین پر سر رکھ کر اور اپنی پیشانی کو خاک کو آلود کر کے بارگاہ خداوندی میں فتح و نصرت کے لئے ملتجی ہوا۔ اللہ کریم نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ اور نصرانیوں کے سروں کو جھکا دیا۔ مسلم سپاہ نے کشتوں کے پشتے لگا دئیے رومی بادشاہ اور سپہ سالار فوج ڈومانوس گرفتار ہوا۔ اسے ایک رومی غلام نے گرفتار کیا۔ جب بادشاہ کو سلطان کے حضور پیش کیا گیا تو سلطان نے اپنے ہاتھ سے اسے تین کوڑے مارے اور پوچھا: اگر میں گرفتار ہو کر تیرے سامنے پیش ہوتا تو تو میرے ساتھ کیسا سلوک کرتا؟ ڈومانوس نے کہا: میں تم سے انتہائی برا سلوک کرتا۔ الپ ارسلان نے کہا: میرے بارے میں تیرا کیا گمان ہے ؟ ڈومانوس بولا۔ تو یا تو مجھے قتل کر دے گا یا اپنے ملک میں میری تشہیر کرے گا یا معاف کر دے گا یا فدیہ لیکر رہا کر دے گا۔ الپ ارسلان چنے کہا: میرا ارادہ یہ ہے کہ تجھ کو معاف کر دوں اور فدیہ لیکر چھوڑ دوں۔ لہذاسلطان نے پندرہ لاکھ اشرفیاں لیکر اسے آزاد کر دیا۔ جب ڈومانوس روانہ ہونے لگا تو سلطان نے اسے پینے کے لئے مشروب دیا۔ وہ سلطان کے اس نیک سلوک سے بہت متاثر ہوا۔زمین بوس ہوا۔ تعظیم بجا لایا۔ سلطان نے ازراہِ عنایت دس ہزار دینار فدیے سے چھوڑ دئیے۔خود اس کی پیشوائی کے لئے دور تک چلا قید بطریقوں میں سے ایک کو آزاد کر کے اسکے ساتھ کر دیا۔ اسکے علاؤہ ایک محافظ دستہ ساتھ دیا تاکہ کوئی گزند نہ پہنچائے۔سلطان الپ ارسلان کا ایک مختصر سا لشکر جسکی تعداد پندرہ ہزار تھی ڈومانوس کے ایک لاکھ سے زائد کے لشکر کو شکست فاش کرنا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ اس واقعے نے رومیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔

الپ ارسلان ایک متقی اور پرہیز گار انسان تھا۔ فتح کے مادی اور معنوی ہر دو اسباب سے استفادہ کرتا تھا۔ علماء اکرام کی ہم نشینی سے بہرہ ور ہوتا۔ ان کی نصیحتوں کو گوش ہوش سے سنتا اور ان پر عمل پیرا ہوتا تھا۔ اسلام کا یہ بطل جلیل اور عظیم سپہ سالار ایک باغی کے ہاتھوں شہید ہوا۔اس باغی کا نام یوسف خوارزمی تھا 

۔ آپ کا سن وفات 10 ربیع الاول 465ھ بمطابق 1072 ء ہے۔ آپ مروکے شہر میں اپنے باپ کے پہلو میں دفن ہوئے اور ملک شاہ کو اپنا جانشین چھوڑا۔


‎@samiamjad715

Post a Comment

3 Comments

  1. شیعہ بغداد سور عباسی حکومت پر جب چھا چکا تھا توسلجوقیوں نےبغدادسےاسکاخاتمہ کیا۔جب سلطان طغرل بیگ عباسی خلافت کے دارالحکومت میں حاضر ہوۓ تو انکا شاندار استقبال کیا گیا انہیں تحفے دیے گۓ اور عباسی خلافت کا جو امیر تھا اس نے اپنے پاس بٹھایا تھا

    ReplyDelete