Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

چترال شہر سے دو گھنٹے کی مسافت پر موجود کافرستان اور اس کا کلچر تحریر علمی دنیا



‏چترال شہر سے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر کافرستان واقع ہے۔ کیلاش مذہب میں خدا کا تصور تو ہے مگر کسی پیغمبر یا کتاب کا کوئی تصور نہیں. ان کے مذہب میں خوشی ہی سب کچھ ہے۔ وہ کہتے ہیں جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ہے اسی طرح اس کا مرنا بھی خوشی کا موقع ہے. 

چنانچہ جب کوئی مرتا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن جمع ہوتے ہیں- میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ہال میں رکھ دیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آٹھ سے دس بیل ذبح کئے جاتے ہیں اور شراب کا انتظام کیا جاتا ہے۔ تیار ہونے والا کھانا خالص دیسی ہوتا ہے.‏آخری رسومات کی تقریبات کا جشن منایا جاتا ہے۔ ان کا عقیده ہے کہ مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جانا چاہیئے۔ جشن میں شراب ، کباب ، رقص اور ہوائی فائرنگ ہوتی ہے ۔مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ ، سگریٹ رکهی جاتی ہے۔ پرانے وقتوں میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر‏قبرستان میں رکھ آتے تھے۔ آج کل اسے دفنانے کا رواج ہے۔ 

کیلاش میں ہونے والی فوتگی خاندان کو اوسطاَ اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ہے۔ جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پینتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ہے۔
فوتگی کی طرح ان کے ہاں شادی اور پیدائش بھی حیران‏کن ہے۔ لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لے جانی ہوتی ہے. لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ہاں آکر لڑکی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ہے۔ یوں رشتہ ہو جاتا ہے۔ اس کے‏بعد دعوت کا اہتمام ہوتا ہے۔

 جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ہیں. شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ہے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ہیں۔ اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ‏پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ہو تو اس کے سابقہ شوہر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ پہلا بچہ پیدا ہونے پر زبردست قسم کی دعوت کی جاتی ہے۔

 جس میں بکرے اور بیل ذبح ہوتے ہیں۔ یہ دعوت ہوتی لڑکی والوں کے ہاں ہے‏مگر اخراجات لڑکے والوں کو کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکے والوں کو لڑکی کے ہر رشتےدار کو دو ہزار روپے فی کس بھی دینے ہوتے ہیں. اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اسی جنس کا ہوا تو یہ سب کچھ اس موقع پر بھی ہو گا۔ یہاں تک کہ اگر مسلسل صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہوتی‏رہیں تو یہ رسم برقرار رہے گی۔ اس سے جان تب ہی چھوٹ سکتی ہے جب مخالف جنس کا بچہ پیدا ہو.اگر کیلاش لڑکے یا لڑکی کو کسی مسلمان سے پیار ہو جائے تو شادی کی واحد صورت یہی ہے کہ کیلاش کو اسلام قبول کرنا ہو گا خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی.
تحریر۔علمی دنیا

Post a Comment

0 Comments