قارئینِ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی الله تعالیٰ کی نعمت ہے اسے بچانا ہر صورت میں فرض ہے۔اور صحت کے حوالے سے مشہور قول ہے" تندرستی ہزار نعمت ہے" جان ہے تو جہان ہے۔ حکومت کی طرف سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور مسلسل بند رکھے گئے لیکن آنلائن کلاسز کا اجراء کیا گیا اساتذہ کے لیے کافی مشکل تھی آنلائن پڑھانا کیونکہ ہمارے ملک میں پہلے ایسے کبھی ہوا ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی اداروں نے بہت کوشش کی ساتھ والدین بھی پریشان رہے۔
بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ سمارٹ فونز لے کر دینا پھر انٹر نیٹ کا بندوبست کرنا اور ہر وقت انٹچ رہنا۔ اس میں اگر کوئی سکون سے رہا تو وہ بچے تھے جنہوں نے آنلائن کلاسز کے ساتھ ارام سے گیمزکھیلیں اور کلاس کے دوران تنگ کیا سمجھنے کی کوشش تک نا کی۔یہ سلسلہ کئی ماہ سے جاری ہے جسکی وجہ سے تعلیم کا جتنا حرج ہوا ہے شاید ہی کبھی ہوا ہو یا اب پورا ہو سکے۔ کیونکہ معذرت کے ساتھ تربیت تو ہم نے پنڈی میں کیے گئے احتجاج میں دیکھ ہی لی۔ جہاں شدت سے احساس ہوا کہ انکو تعلیم کی نہیں تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمارا تو تعلیمی نظام ہی اس قابل نہیں کہ وہ انے والی نسل کو معاشرے کا فعال رکن بنا سکے کیونکہ کامیابی صرف یہ نہیں ہے کہ اپ نے ڈگری حاصل کی یا سی جی پی 4/4 کی کامیابی تو معاشرے کے لیے بہترین کام سرانجام دینے کا نام ہے تعلیم تو معاشرے کی بہتری کا نام ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے ہمارے ہاں۔ ہم تو وہ بدقسمت معاشرہ بن چکے ہیں جہاں تعلیم کو سرے سے ازسر نو سر انجام دینے کی ضرورت ہےہمیں زیرو سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم نے کیا کیا؟
ہم نے اقبال کی روح کو جگانے والی شاعری نکالی پھر معاشرتی علوم سے اپنی تاریخ نکالی۔ اسلامیات سے اسلامی واقعات نکالے۔ اور دیا کیا ایک رٹا رٹایا نظام جو کلرک سے لے کر اے سی ڈی پی او تک کرپٹ پیدا کررہا ہے۔جہاں نا چھوٹے کا لحاظ نا بڑے کی شرم۔ اس ڈیڑھ سال نے بنائے اس تعلیمی نظام کی اصلیت کھول دی۔
رہی سہی کسراب امتحانات پوری کردیں گے۔ یہ کیسا امتحان کا فیصلہ کیا گیا جس میں صرف اختیاری مضامین کا امتحان لیا جائے گا۔ اور لازمی مضامین جن پر پہلے ہی فوقیت کم تھی انہیں سلیبس سے ہی نکال دیا۔ اور سمارٹ سلیبس کے نام پے مزید کم کردیا جائے گا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ امتحان لیا ہی نہیں جاتا کم از کم بھرم رہتا۔ مجھے نہیں پتہ اس امتحان سے بچے خوش ہیں یا اساتذہ کیونکہ بحثیت معاشرے کا رکن میں تو خوش نہیں ہوں اور یقیناً بہت سے لوگ متفق ہونگے مجھ سے۔
حکومت کو کسی بھی دباؤمیں آ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ بیشک پڑھنے کے لیے وقت دیتے لیکن امتحانات پورے وقت پورے سلیبس اور مضامین کا لیتے۔ یہ جو اپنی بات منوانے کے لیے اج گاڑیاں توڑ رہے ہیں کل کو نجانے کیا کیا کریں گے۔اس لیے حکومت وقت سے درخواست ہے کہ نظر ثانی کریں۔ امتحانات میں تمام مضامین شامل کریں پالیسی بنائیں شیڈول بنائیں۔ تعلیمی ادارے کھولیں اگر بازاروں ،ہوٹلوں، شاپنگ پلازوں سے کورونا نہیں لگ رہا تو ان شاء الله تعلیم ادارے بھی محفوظ رہیں گے۔بیشک ویکسینیشن کروائیں اساتذہ کی بچوں کی باقی سٹاف کی۔ الله کرم کرےگا۔ اس پر غور ضرور کریں۔
2 Comments
عمدہ
ReplyDeleteاچھی مصروفیات ہین۔۔۔۔
ReplyDelete